کیا آن لائن نکاح درست ہے؟ لڑکا صاحبِ حیثیت ہے ، لیکن کہہ رہا ہے کہ کراچی شادی پرایک بار آ ؤں گا ، تو اس لیے آن لائن نکاح کرے گا، کیا یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کےلیےدو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کی مجلس بھی ایک ہونا ضروری ہے، یعنی دولہا اور دلہن یا ان کے مقرر کردہ وکیل ایک ہی مجلس میں موجود ہو کر ایجاب و قبول کریں، آن لائن ایجاب و قبول کرنے کی صورت میں چوں کہ یہ شرط(اتحاد مجلس ) نہیں پائی جاتی اس لیے آن لائن نکاح کرنے سے شرعًا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے؛ اس لیے آن لائن نکاح کرنے سے نکاح نہیں ہوگا، البتہ اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی ایسے آدمی کو اپنا وکیل بنادے جو مجلس نکاح میں موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى. "
(کتاب النکاح ، ج:1، ص:269، ط:دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة."
(کتاب النکاح ، ج:2، ص:231، ط:دار الکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"و من شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين،قال الشامی (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعًا تيسيرًا."
(کتاب النکاح، ج:3، ص:14، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100863
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن