بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کاروبار کا حکم


سوال

آن لائن کاروبار جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  کاروبار / خرید و فروخت  میں اگر خریدوفروخت کی  تمام  شرائط پائی جائیں تو  وہ معاملہ  شرعاً صحیح ہوگا ، مثلاً: مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہوجائے، اور کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو وغیرہ ۔

چناں چہ  آن لائن کاروبار  میں  اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کرمشتری پر فروخت کی جارہی ہو اور مشتری سے قیمت وصول کرلی جائے تو یہ بیع درست ہے ، لیکن اگر مبیع (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی پر وہ سامان  فروخت  کرتاہے اور بعد میں وہ سامان  دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتاہے تو یہ صورت جائز نہیں ؛ اس لیے کہ بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہیں ہے اور وہ غیرکی ملکیت میں موجودسامان کو فروخت کررہاہے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بائع مشتری کو یہ کہہ دے کہ یہ سامان  میری ملکیت میں نہیں ،میں اسے خرید کرآپ پر اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں،اگر آپ راضی ہیں تو میں یہ سامان  خرید کر اپنے قبضہ میں لے کر آپ پر بیچ دوں گا۔یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری پر فروخت کرے تو یہ درست ہے۔

اسی طرح آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد (مشتری) سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔

 البتہ ان صورتوں میں جب مبیع مشتری تک پہنچ جائے اور دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہویا اس میں کوئی عیب ہوتواسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔نیز ان صورتوں  میں  مشتری  جب تک مبیع پر قبضہ نہ کرلے وہ آگے کسی اور پر وہ سامان فروخت نہیں کرسکتا۔

نیز  سونا، چاندی اور کرنسی  کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔

باقی آپ کس قسم کا آن لائن کاروبار کرنا چاہتے ہیں ، اس کی تفصیل لکھ کر بھیج دیجیے ان شاء اللہ اس کے شرعی حکم کے متعلق راہ نمائی کر دی جائے گی۔

سنن ابوداود میں ہے:

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك."

(كتاب الإجارة، باب في الرجل يبيع ما ليس عنده، ج: 2، ص: 1003، ط: بشري)

مرقاة المفاتیح میں ہے :

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه، وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(كتاب البيوع، باب المنهي عنهامن البيوع، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 78، ط: رشيدية)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"وأما نهيه عن بيع ما لم يقبض يعني في المنقولات، وأما نهيه عن بيع ما ليس عنده فهو أن يبيع ما ليس في ملكه، ثم ملكه بوجه من الوجوه فإنه لا يجوز إلا في السلم فإنه رخص فيه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 1، ص: 241، ط: قديمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يصح اتفاقا... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما. وفي الرد: (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(باب المرابحة و التولية، فصل في التصرف في المبيع و الثمن قبل القبض و الزيادة، ج: 5، ص: 148،147، ط: سعید)

وفيه أيضاً: 

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة، مطلب في أجرة الدلال، ج: 6، ص: 63، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شراء ما لم يره جائز كذا في الحاوي وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا وصفته كذا والدرة التي في كفي هذه وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقبة... من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة... وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده هكذا في المضمرات."

(كتاب البيوع، الباب السابع في خيار الرؤية، الفصل الأول في كيفية ثبوت الخيار وأحكامه، ج: 3، ص: 58،57، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"خيار العيب يثبت من غير شرط كذا في السراج الوهاج. ‌وإذا ‌اشترى ‌شيئا ‌لم ‌يعلم ‌بالعيب ‌وقت ‌الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده كذا في شرح الطحاوي. وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية... وليس له أن يمسكه ويأخذ النقصان كذا في شرح القدوري."

(كتاب البيوع، الباب الثامن في خيار العيب، الفصل الأول في ثبوت الخيار وحكمه وشرائطه ومعرفة العيب وتفصيله، ج: 3، ص: 66، ط: رشيدية)

مبسوطِ  سرخسی میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: «الذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا. والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا. والحنطة بالحنطة مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا. والملح بالملح مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا. والشعير بالشعير مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا. والتمر بالتمر مثلا بمثل يدا بيد، والفضل ربا.» وهذا حديث مشهور تلقته العلماء رحمهم الله تعالى بالقبول والعمل به... ودار هذا الحديث على أربعة من الصحابة - رضوان الله عليهم أجمعين -: عمر بن الخطاب وعبادة بن الصامت وأبي سعيد الخدري ومعاوية بن أبي سفيان، - رضي الله عنهم - مع اختلاف ألفاظهم."

(كتاب البيوع، ج: 12، ص: 129،128، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں