بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کاروبار کرنے کاحکم


سوال

آن لائن کاروبار کا کیا حکم ہے؟

جواب

آن لائن کاروبار میں اگر مبیع (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی پر وہ سامان  فروخت کرتاہے، اور بعد میں وہ سامان  دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتاہے، تو یہ صورت جائز نہیں ؛ اس لیے کہ بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہیں ہے، اور وہ غیرکی ملکیت میں موجودسامان کو فروخت کررہاہے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بیع نہ کرے، بلکہ  بیع کا وعدہ کرے، یعنی یہ  کہے کہ یہ چیز آپ کو اتنے میں دوں گا، اگر مشتری اس پر راضی ہوجائے، تو بعد میں وہ خرید کر قبضہ کرنے کے بعد وعدہ کے مطابق اس قیمت پر دیدے، تو یہ درست ہے۔

اور اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو، اور تصویر دکھلا کرمشتری پر فروخت کی جارہی ہو، اور مشتری سے قیمت وصول کرلی جائے، تو یہ بیع درست ہے، البتہ جب مبیع مشتری تک پہنچ جائے، اور دیکھنے کے بعد وہ چیز اس کی مطلوبہ  شرائط کے مطابق نہ ہو،توخریدار کو اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

اسی طرح اگر آن لائن بیچنے والا کسی جگہ سے تصویریں اٹھا کر اپنے پیج میں لگاتاہے، اور جس اسٹور سے وہ تصویر اٹھا کر لگائے، اس کی قیمت پر کچھ نفع کے ساتھ آگے اپنے گاہک کو  فروخت کرتاہو، یا اپنے گاہک کے ساتھ بیع کا وعدہ کرتاہو، اور آڈر دینے کی صورت میں مذکورہ اسٹور سے وہ چیز خرید کر اپنے قبضہ میں لینے کے بعد پھر آگے وہ اپنے گاہک پر کچھ نفع کے ساتھ فروخت کرے، تو بیع کی یہ صورت بھی جائز ہے؛ اس لیے کہ یہ بیع مرابحہ ہے، اس میں آن لائن بیچنے والے کا کوئی نقصان نہیں ہے، کیونکہ  وہ  اپنے پیج میں اس چیز کی جو قیمت لگائی ہے، وہ قیمت اسے بغیر کسی کمی بیشی کےمل رہی ہے، اور اگر وہ شخص  اسٹور سے چیز خریدنے سے پہلے کسی اور کو تصویر دکھا کر بیچ دیتاہے، اور پھر  آن لائن اسٹور سے خرید کر اس گاہک کو دیتاہے تو یہ بیع قبل القبض ہونے کی بناء پر شرعاً ناجائز ہے، البتہ وعدہ کرنے کے بعد چیز پر قبضہ کرکے سودا کرے تو یہ جائز ہے۔

نیز ان دونوں صورتوں  میں  مشتری جب تک مبیع پر قبضہ نہ کرلے، وہ آگے کسی اور پر وہ سامان فروخت نہیں کرسکتا۔ 

یہ بھی ملحوظ رہے کہ کرنسی، سونا اور چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔

آن لائن کاروبار کرنے کی مختلف صورتیں ہیں، اور ہر صورت کا شرعی حکم بھی الگ الگ ہے، تمام صورتیں نہ جائز ہیں، اور نہ ہی ناجائز؛ لہذا سائل کے سوال کرنے کا مقصدجس صورت کے بارے میں معلوم کرنا ہے، وہ صورت پوری تفصیل کے ساتھ لکھ کر دارالافتاء میں ارسال کرلیں، تاکہ متعینہ صورت کا حکم لکھا جاسکے۔

الدر المختار میں ہے:

"(ويقول) البائع (‌قام ‌علي بكذا وكذا يضم إلى رأس المال ما يوجب زيادة فيه حقيقة أو حكما أو اعتاده التجار) كأجرة السمسار، هذا هو الأصل".

(باب المضارب يضارب، ج:5، ص:658، ط:سعيد)

 وفیه أیضاً:

"(المرابحة) مصدر رابح وشرعا (بيع ما ملكه)من العروض ولو بهبة أو إرث أو وصية أو غصب فإنه إذا ثمنه (بما قام عليه وبفضل) مؤنة وإن لم تكن من جنسه."

(کتاب البیوع، باب المربحة والتولیة، ج:5، ص:132،133، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"(وإذا وجدا لزم البيع) بلا خيار إلا لعيب أو رؤية خلافا للشافعي."

(کتاب البیوع، ص:528، ج:4، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح (إن اتحد جنسًا وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) لما مر في الربا."

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:257،258، ط: سعید) 

      بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده،ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم".

(فصل: وأما الذی یرجع إلی المعقود علیه، ج:4، ص:340، ط: مکتبة الوحیدیة) 

فتح القدیر  میں ہے:

"(ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر -رضي الله عنه-: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلاتنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقًا للمساواة فلايتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء (قوله: ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء. وفي فوائد القدوري: المراد بالقبض هنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد، وذكرنا آنفا أن المختار أن هذا القبض شرط البقاء على الصحة لا شرط ابتداء الصحة لظاهر قوله: فإذا افترقا بطل العقد، وإنما يبطل بعد وجوده وهو الأصح. وثمرة الخلاف فيما إذا ظهر الفساد فيما هو صرف يفسد فيما ليس صرفًا عند أبي حنيفة - رحمه الله - ولايفسد على القول الأصح."

(باب الصرف، ج:6، ص:260، ط: رشیدیة) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں