بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن گروپ چیٹ میں نکاح کا حکم


سوال

اگر آن لائن گروپ چیٹ میں لڑکا اور لڑکی ايجاب اور قبول مذاق میں کر لیں اور دو مرد گواہ بھی ہو اور ایک مرد مذاق میں قاضی بھی بن جائے تو نکاح ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہو جائے تو جدائی کی کیا صورت ہوگی ؟ خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ ویڈیو کال کے ذریعہ  نکاح جیسی عظیم عبادت کا مذاق بنانا اور لڑکا لڑکی مذاق مذاق میں نکاح کرنا درست نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مجلس میں موجود افراد پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر استغفار کریں اور آئندہ اس قسم کے مذاق سے اجتناب کریں۔

نیز نکاح کے صحیح ہونے کے لیے لڑکا، لڑکی یا ان کی طرف سے مقرر کردہ وکیلوں کا ایک مجلس میں ایجاب و قبول کا پایا جانا شرعاً ضروری ہے، ایجاب و قبول کی مجلس اگر مختلف ہو تو ایسی صورت میں شرعًا نکاح منعقد نہیں ہوتا؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر آن لائن گروپ چیٹ  میں  لڑکا اور لڑکی نکاح کا ایجاب وقبول کریں اور اس پر گروپ ممبران گواہ بن جائیں تو ایسا نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوگا ؛اس لیے کہ نکاح کے درست ہونے کے لیے  نکاح کی مجلس کا ایک ہونا ضروری ہے اورآن لائن  گروپ چیٹ   میں  مجلس ایک نہیں ہوتی ،بلکہ وہ مختلف جگہوں سے  بیٹھ کر بات کررہے ہوتے ہیں ،اس صورت میں گروپ میں کیا ہوا نکاح شرعًا منعقد نہیں ہوگا ۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ ویڈیو کال پر دکھنے والی تصویر بھی تصویر ہے، لہٰذا جاندار کی تصویر دیکھنے اور دکھانے سے اجتناب کیا جائے۔

فتاوی شامی  میں ہے :

"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين.

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد."

(کتاب النکاح،ج:۳،ص:۱۴،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولا أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما.وعند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يجوز هكذا في البدائع."

(کتاب النکاح،الباب الاول فی تفسیر النکاح،ج:۱،ص:۲۶۹،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں