بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن گیم کھیل کر پیسے کمانا


سوال

 پب  جی  یا دوسری گیم کو ذریعہ معاش بنایا جائے، اور کھیل کے جواز والی شرائط پر عمل کیا جائے، تو کیا انہیں ذریعہ معاش بنانا صحیح ہے؟ جب کہ نماز وغیرہ اور تصویر کشی وغیرہ سے اجتناب بھی کیا جائے اور کھیل کا مقصد صرف کمانا ہی ہو ؛ کیوں کہ ایک عرصہ تک مسئلے کی ناواقفیت کی وجہ سے اس طرح کے گیموں میں مہارت حاصل ہے اور  اس کو  اچھا ذریعہ معاش بنانے پر قادر ہے۔ نیز جو گیم وغیرہ پہلے کھیلے جا چکے اور ان کھیلوں کے اکاونٹ بہت اوپر پہنچ چکے ہیں تو کیا ان اکاونٹ کو بیچنا جائز ہے؟

جواب

پب جی   گیم کھیلنا اور  ا س کے ذریعہ  پیسے کمانا شرعاً ناجائز ہے،اس لیے کہ اس کھیل میں  میوزک ،تصویر اور دیگر غیر شرعی امور کا ارتکاب پایا جاتا ہے ،اور یہ گیم تصویر سے خالی نہیں ہوتا، لہذا پب جی گیم کو ذریعہ معاش بنانا  بہرصورت جائز نہیں ہے،  اس میں کھیل کے جواز والی شرائط نہیں پائی جاتیں، اصولی بات  یہ ہے کہ   کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         جب کہ آج کل جو   آن لائن گیمز  ہیں، ان میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، نیز ان میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہے؛ اس لیے شرعاً ان کا کھیلنا اور اس کے ذریعہ پیسے کمانا شرعاً ناجائز ہے،نیر جو گیم پہلے کھیلے جا چکے ہیں ،ان کا اکاؤنٹ بیچنا بھی جائز نہیں ہے ۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ گیم کھیل کر جو فرضی کوائن حاصل کیے جاتے ہیں، ایسے کوئن شرعی اعتبار سے مال نہیں ہیں، لہٰذا گیم کھیل کر اکاؤنٹ میں موجود کوئنز کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

 روح المعانی میں ہے:

’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.

(تفسیر الآلوسي (11 / 66)، سورة لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)

تکملة فتح الملهم  میں ہے:

’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی) 

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

" لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد.
وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك.
وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلا ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها". (2/ 384)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں