بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن گیم کھیلنا اور اس میں سرمایہ کاری کرکے منافع کمانے کا حکم


سوال

ایک ویب سائٹ "فیری" کے نام سے ہے ، جس میں پیسے انویسٹ کرکے بزنس کیا جاتا ہے،اس میں آپ کو پرڈے(یومیہ) منافع ملتا ہے، یہ ایک قسم کا فٹبال گیم ہے،اس میں صرف اسکور پر پیسے حاصل ہوتے ہیں، اور میچ ہار جیت سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے،اس میں آپ اگر پیسہ نہیں لگاتے تو آپ کو منافع نہیں ہوگا، آپ کے پیسے اسی طرح محفوظ ہوں گے، ایک قسم اور ہے جس میں جوا ہے، اگر اس ویب سائیڈ میں جوے کی طرف جاتے ہیں ، تو آپ کو بلاک کردیاجاتا ہے، یہ ادارہ پاکستان گورنمنٹ سے رجسٹرڈ ہے، اس ویب سائیٹ میں پیسہ لگا کر گیم کھیل کر منافع لینا درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گیم کھیلنا ، اس میں پیسے لگانا اور نفع کمانا سب ناجائز اور حرام ہے،لہذا یہ گیم کھیلنے ،اس میں پیسے لگانے اور نفع حاصل کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن ‌كل ‌ما ‌شغلك ‌عن ‌عبادة ‌الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(سورة لقمان، ج:11، ص:66، ط:دار الكتب العلمية)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، ج:4، ص:435 ط:دارالعلوم کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں