بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن گیم (Guns Of Glori) کھیلنے اور اس کی فرضی اشیاء کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

آج کل ویڈیو گیمز کمپنیوں نے ایسے گیمز متعارف کرائے ہیں جن میں حکومت یا سلطنت کو چلانا ہوتا ہے، ان میں سے ایک گیم Guns of Glori ہے، تو حکومت کو کو چلانے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا، عوام کو سہولت فراہم کرنا  اور وہ سارے کام جو عام حالات میں حکومت چلانے کے لیے کیے جاتے ہیں یعنی دشمن سے حفاظت کے لیے دیوار بنانا ،دریاؤں پر پل   باندھنا ،عمارت بنانا ،عوام کو  طاقتور بنانے کے لیے گوشت اور میوہ جات کھلانا ،اسی طرح  بہت سے کام کرنا۔

 یہ گیم آن لائن ہوتی ہے اور بہت سے لوگ اس کو علیحدہ علیحدہ کرتے ہیں تو جو لوگ اس میں زیادہ  وقت صرف کرتے ہیں اور زیادہ مہارت رکھتے ہیں تو ان کے پاس لوہا، پتھر، لکڑی، گائے، بکریاں اور بہت سی چیزیں ہوتی ہیں ۔ تو جب ساتھی کو گیم میں ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ  رقم کے عوض خرید لیتا ہے،  تو کیا ان چیزوں کی خرید و فروخت جائز ہے جن کی اصل زندگی میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی صرف تصویر ہوتی ہے۔

 اور جواز کے لئے تعلیمی اداروں کی مثال دی جا رہی ہے وہاں پر بھی کوئی چیز فزیکلی ( جسمانی) طور پر نہیں دی جاتی ہے، بلکہ صرف الفاظ کی  منتقلی ہوتی ہے،  تو جس طرح وہ جائز ہے یہ بھی جائز ہے براہ کرم شرعاً اصلاح فرمائیں۔

جواب

 آج کل موبائل فون پر مختلف ناموں سے آن لائن گیم موجود ہیں، ان گیمز کے مختلف مراحل کو پاس کرنے کی صورت میں کچھ فرضی اشیاء ملتی ہیں اور ان اشیاء کے ذریعہ گیم کے اگلے مراحل کو کھیلا جاسکتا ہے، بہت سے لوگ اس طرح کے گیم کھیل کر گیم کے اندر موجود مختلف فرضی اشیاء جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر دیگر لوگوں کو یہ فرضی اشیاء پیسوں کے بدلہ بیچ دیتے ہیں اور فرضی اشیاء خریدنے والے لوگ پھر ان فرضی اشیاء سے یہ گیم کھیلتے ہیں اور ختم ہوجانے کی صورت میں مزید خرید لیتے ہیں، اور یوں یہ خرید و فروخت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہاں  دو باتیں غور طلب ہیں: ایک یہ کہ اس خرید و فروخت کا شرعاً   کیا حکم ہے ؟ اور دوسرا یہ کہ ان کوئن کی خرید و فروخت سے قطع نظر اس طرح کے گیم کھیلنا بذاتِ خود کیسا ہے؟

جہاں تک کوائن کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے تو جاننا چاہیے کہ خرید و فروخت  کے جائز ہونے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  مبیع (جس  چیز کو بیچا جارہا ہے) اور ثمن( جس کے ذریعے  کسی چیز کو خریدا جارہا ہے)   خارج میں مادی شکل میں  موجود ہوں، اور وہ مالِ متقوم ہو، محض فرضی چیز نہ ہوں، لہذا جس چیز کا خارج میں وجود نہ ہو اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی جامد اثاثے ہوں  تو شرعاً ایسی  چیزوں کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

لہذا سوال میں مذکورہ آن لائن گیم (Guns Of Glori) کے اندر موجود لوہا، پتھر، لکڑی، گائے، بکریاں وغیرہ سب چیزیں چوں کہ صرف فرضی چیزیں ہے، خارج میں ان کا کوئی وجود نہیں ، اس لیے ان میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں ،  نیز آن لائن گیم  کی جن فرضی اشیاء کی خرید و فروخت کی جاتی ہے ان کو حاصل کر کے معتدبہ تعداد تک پہنچا کر فروخت  کرنے کے لیے کافی عرصہ لگتا ہے، اور یہ لہو ولعب میں لگ کر وقت اور مال دونوں کا ضیاع ہے، اور اگر گیم میں جان دار کی تصاویر ہوں تو یہ ایک اور شرعی قباحت ہے، اس لیےمذکورہ آن لائن گیم (Guns Of Glori) کے اندر موجود فرضی اشیاء (لوہا، پتھر، لکڑی، گائے، بکریاں وغیرہ) کی  خرید وفروخت  شرعاً جائز  نہیں ہے۔ جو لوگ اس کو جائز قرار دینے کے لیے اسے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے اور اس کے عوض فیس ادا کرنے سے تشبیہ دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں ہے؛ کیوں کہ تعلیمی اداروں میں جو فیس کے عوض تعلیم حاصل کی جاتی ہے وہ معاملہ شرعاً اجارے کا ہے، خرید و فروخت کا نہیں، اور اجارہ کے معاملے میں جو عوض ادا کیا جاتا ہے وہ کسی حقیقی منفعت کا بدلہ ہوتا ہے، مثلا تعلیمی ادارے والے طلبہ کے لیے جگہ، استاد،بجلی وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں اور طلبہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے عوض فیس ادا کرتے ہیں، اس لیے وہ معاملہ تو جائز ہے، جب کہ مذکورہ آن لائن گیم میں نہ تو کسی حقیقی چیز کی خرید و فروخت کی جارہی ہے ، اور نہ ہی کسی حقیقی چیز سے منفعت اٹھانے کا کوئی معاملہ کیا جارہا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملہ کو جائز قرار دینا بالکل غلط ہے۔ 

دوسری بات  یہ ہے  کہ  کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         حاصل یہ ہے کہ اگر آن لائن گیم میں   مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں ، یا مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو  خود اس طرح  کا گیم کا کھیلنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك  البائع فيما ببيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم، منح".

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،5/ 58، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلاينعقد بيع المعدوم ... (ومنها) أن يكون مالاً لأن البيع مبادلة المال بالمال".

(كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه ،5/ 138، 140،ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

مطلب: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك ولايجوز الصلح عنها".

(كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية،4/ 518، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما معنى الإجارة فالإجارة بيع المنفعة لغة ولهذا سماها أهل المدينة بيعا وأرادوا به بيع المنفعة ولهذا سمي البدل في هذا العقد أجرة، وسمى الله بدل الرضاع أجرا بقوله {فإن أرضعن لكم فآتوهن أجورهن} [الطلاق: 6] والأجرة بدل المنفعة لغة ولهذا سمي المهر في باب النكاح أجرا بقوله عز وجل {فانكحوهن بإذن أهلهن وآتوهن أجورهن} [النساء: 25] أي مهورهن لأن المهر بدل منفعة البضع، وسواء أضيف إلى الدور، والمنازل، والبيوت والحوانيت، والحمامات، والفساطيط، وعبيد الخدمة، والدواب، والثياب، والحلي والأواني، والظروف، ونحو ذلك أو إلى الصناع من القصار، والخياط، والصباغ والصائغ، والنجار والبناء ونحوهم، والأجير قد يكون خاصا وهو الذي يعمل لواحد وهو المسمى بأجير الواحد، وقد يكون مشتركا وهو الذي يعمل لعامة الناس وهو المسمى بالأجير المشترك، وذكر بعض المشايخ أن الإجارة نوعان إجارة على المنافع، وإجارة على الأعمال، وفسر النوعين بما ذكرنا وجعل المعقود عليه في أحد النوعين المنفعة وفي الآخر العمل وهي في الحقيقة نوع واحد لأنها بيع المنفعة فكان المعقود عليه المنفعة في النوعين جميعا".

(كتاب الاجارة، 4/ 174، ط: سعيد)

روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها".

(تفسیر الآلوسي (11 / 66)، سورة لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)

تکملۃ فتح الملهم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں