بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کرنسی ایکسچینج میں کام کرنے کا حکم


سوال

ہماری کینیڈا میں ایک آن لائن کرنسی ایکسچینج کمپنی ہے،جو دو طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہے(1)آن لائن کرنسی کا تبادلہ(2)آن لائن کرنسی کا تبادلہ کرکے کسی دوسرے تک رقم پہنچانا۔

کمپنی کے ذرائع آمدن:

ہماری کمپنی مذکورہ کرنسی ایکسچینج اور رقم کی ترسیل سے پیسہ کماتی ہے، جس کے2طریقہ کار ہیں(1) رقم کی ترسیل پر فیس اور اجرت لے کر  منافع کمایا جاتا ہے،اجرت کی شرح مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوسکتی ہے،اور خاص کسٹمرز کے لیے معاف بھی کی جاسکتی ہے۔(2)کرنسی کا مارکیٹ میں جو ریٹ مقرر ہے اس میں کچھ اضافہ کرکے اپنا ایک ایکسچینج ریٹ دے کر منافع کمایا جاتا ہے، مثلاً مارکیٹ میں100ڈالر10000پاکستانی روپے میں خریدے جاسکتے ہوں ، کمپنی کے ریٹ کے مطابق یہی100ڈالر  10500روپے میں آن لائن خریدے جاسکتے ہیں،اور پھر اس میں اگر کچھ اجرت مثلاً50روپے شامل کی جائے تو ٹوٹل رقم10550بن جاتی ہے۔

رقم کےترسیل کے لیےعمومی طور پرکمپنی میں کام کے دو طریقے رائج ہیں :

پہلاطریقہ (Spot Deal):کسٹمرز یعنی صارفین کمپنی کی ویب سائٹ کے ذریعہ رابطہ کرتے ہیں،اور اگر کمپنی کے ساتھ اپنا کرنسی کے تبادلے اور ترسیل کے معاملات طے کرتے ہیں،اگر بات پکی ہوجائے تو اس کو(deal)کہاجاتا ہے،اور رقم کے تبادلے کے حوالہ سے کمپنی اور صارف میں ریٹ طے ہوجاتے ہیں،صارف خود قبول کرتا ہے کہ مذکورہ رقم مطلوبہ شخص کو کس دن پہنچانی ہے،اس حوالہ سے تاریخ بھی طے ہوجاتی ہے،معاملات طے ہونے کے فوراًبعد کمپنی   کسٹمر سے فون کے ذریعہ تصدیق کرتی ہے کہ آپ یہ رقم کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں،اگر کسٹمراقرار کرلے تو کمپنی اُس کرنسی کےاُتنے ذخائر خرید کررکھ لیتی ہے،جو مطلوبہ  شخص کو پہنچانے ہوتے ہیں،کمپنی جب صارف کو کال کرتی ہے،تو اس وقت معاملہ حتمی طور پر طے ہوجاتا ہے، مثلاً میں10550روپے کے بدلے کسی کو100ڈالر بجھوانا چاہوں تو کمپنی یہ100ڈالر کہیں سے خرید کر اپنے پاس رکھ لے گی، پھر طے شدہ تاریخ کو مجھے دوبارہ کال کرمیرے بینک اکاؤنٹ سے10550روپے وصول کرلیے جائیں گے،اورکچھ گھنٹوں بعد دوسرے شخص کو ایکسچینج کی گئی رقم یعنی100ڈالر پہنچادی جائے گی، مذکورہ صورت میں جو تاریخ طے ہوتی ہے وہ عموماً(Working days)یعنی کام کے دنوں کی ہوتی ہے،مثلاًاگرمیں جمعہ کے دن کمپنی کے ساتھ کوئی (deal) بناؤں تو میں جمعہ کی تاریخ مقرر کرسکتاہوں،اور جمعہ کے انتخاب کی صورت میں کمپنی جمعہ کے دن ہی رقم ایکسچینج کرکے مطلوبہ شخص کو پہنچادے گی،اور اگر جمعہ کے دن کا انتخاب نہ کروں تو اگلے ورکنگ ڈیز کا ہی انتخاب کرسکتا ہوں،لہذا ہفتہ اور اتوار کا دن منتخب نہیں ہوگا،کیوں کہ وہ ورکنگ ڈیز میں شام نہیں ہیں، پیر کے دن کا انتخاب ہوسکے گا۔

دوسری طریقہ (Forward Deal): وہ یہ ہے کہ کمپنی کئی دنوں بعد کی تاریخ منتخب کرنے کی بھی سہولت فراہم کرتی ہے،جس کو(Forward Deal)فارورڈ ڈیل کہا جاتا ہے،اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں اگر فارورڈ ڈیل منتخب کروں تو کمپنی ڈیل ہونے کے بعد تصدیق کرےگی،اور پھر ذخائر خریدنے کے بجائے مجھ سے(Security deposit)سیکورٹی ڈیپوزٹ مانگے گی،یعنی جتنی قیمت میں معاملہ میں کمپنی کے ساتھ معاملہ طے پاجائے اس میں سے کچھ رقم کمپنی کو ادا کی جاتی ہے، پھر جو تاریخ کئی دن بعد کی مقرر کی گئی ہےاس کے آنے بعد دوبارہ مارکیٹ ریٹ دیکھ کر نیا ریٹ طے کیا جاتا ہے، اس وقت کے مارکیٹ کے لحاظ سے اگر زیادہ پیسے بنیں تو مزید پیسے لیے جاتے ہیں،اور اگر پیسے کم بنیں تو پیسے کم لیے جاتے ہیں، مثلاً مجھےاس فاروڈ ڈیل میں   100ڈالرکے بدلےکُل رقم10550دینی ہے تو کمپنی مجھ سے ڈیل کے وقت فی الفور2000روپےلے لی گی،پھر مقررہ تاریخ آنے پر ڈالر کا مارکیٹ ریٹ دیکھا جاتا ہے،اگر اس کی قیمت میں2000زیادہوئے ہوں تو اب کمپنی مجھے سے10550کے بجائے12550روپے لے گی،جس میں سے روپے تو2000پہلے وصول کرچکی ہوگی،مزید بقایا10550روپے میں اداکروں گا،اور اگر ڈالر کے ریٹ میں کم ہونے کی وجہ سے2000کا فرق آیا ہوتو کمپنی مجھ سے10550کے بجائے8550روپے وصول کرے گی۔

کمپنی میں ہمارا کام فقط یہ ہوتا ہے کہ ویب سائٹ کو دیکھیں اور کمپنی کی فراہم کردہ سہولیات کو آسان سے آسان تر بنائیں،باقی رقم کی ترسیل کا اصل کام اور کمپنی اور صارف کے درمیان معاملات فون کے ذریعہ ہی طے ہوتے ہیں۔

مندرجہ تفصیل کے مطابق کمپنی کے کاروبار کاشرعاً کیا حکم ہے؟اور ہمارے لیے مذکورہ کمپنی میں کام کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ آن لائن کرنسی ایکسچینج کمپنی کا کام شرعی طور پر ناجائز ہے کیوں کہ   کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین (جانبین کی کرنسی) پرمجلسِ عقد میں ہی ہاتھ در ہاتھ قبضہ ضروری ہے،اور  دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،جب کہ مذکورہ بالا کمپنی میں کرنسی ایکسچینج کا سارا کا سارا نظام آن لائن ہوتا ہے، اس لیےبیع صرف کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط عاقدین(بائع و مشتری) کا ایک مجلس میں بدلین( دونوں کرنسیوں) پر ہاتھ در ہاتھ قبضہ کرنے کی شرط مفقود ہوجاتی ہے،لہذا کمپنی کی جانب سے کیے جانے والےایسے تمام سودے ناجائز ہیں اورنفع حلال نہیں ہے۔

نیز کمپنی کی جانب  سےکرنسی ٹرانسفر یعنی رقم کی ترسیل کے طریقہ کار میں بھی مفاسد پائے جاتے ہیں، مثلاً کمپنی اور صارف کے درمیان مارکیٹ ریٹ سے زائد پر کرنسی کی خریدوفروخت کا معاملہ طے پاتا ہے،اسی معاملہ میں کمپنی صارف سےاجرت بھی لے رہی ہے،اور پھر صارف کی طرف سے وکیل بن کر مطلوبہ کرنسی صارف کے بیان کردہ دوسرے شخص تک پہنچارہی ہے، لہذا ایک ہی معاملہ کے تحت کئی قسم کے عقود(عقد بیع ، عقد اجارہ اور عقد وکالت) کا بیک وقت جمع ہونا پایا جارہا ہے،اور  ایک ہی معاملہ میں دو یا دو سے زائدقسم کے عقود کو جمع کرنا  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہے:

" عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة."

(رواه الترمذي ،3/525 ،ط: مصطفی البابی الحلبی،مصر )

نیز رقم کی ترسیل کے دوسرے طریقہ کار" فارورڈ ڈیل" میں کمپنی صارف کو بذریعہ فون کال تصدیق کرکے تمام معاملات طے کرلیتی ہے، اس سےکچھ رقم سیکیورٹی ڈیپوزٹ کے عنوان سےایڈونس میں لے لیتی ہے، لیکن صارف اور کمپنی کے درمیان کرنسی کے ریٹ کے حوالہ سے معاملہ حتمی طور پر طے نہیں ہوتا، بلکہ وہ رقم کی ترسیل کے حوالہ سے مقررہ دن یا تاریخ پر موقوف رہتا ہے،اور اس دن کے مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے کرنسی کا ریٹ کمپنی طے کرتی ہے،گویا اس طریقہ کار میں کرنسی کی قیمت بھی مجہول ہوتی ہے،لہذااس اعتبار سے بھی کمپنی کے معاملات میں فساد پایاجاتا ہے۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة.فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:156، ط:دارالكتب العلمية)

لہذا سائل کے لیے غیر شرعی ذرائع آمدن رکھنے والی مذکورہ بالا کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وعلى أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة وهو أن يأكله بالباطل، وقد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة."

(باب التجارات وخیار البیع،(3/128)،ط.دار إحياء التراث العربي - بيروت)

دررالحکام شرح غررالااحکام میں ہے:

"(بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية كالذهب والفضة سواء كان (جنسا بجنس أو بغيره) كبيع الذهب بالذهب والفضة بالفضة أو الذهب بالفضة أو بالعكس (فإن تجانسا) أي الثمنان بأن يكونا ذهبين أو فضتين (لزم التساوي والتقابض) لما مر في الربا من قوله - صلى الله عليه وسلم - «الذهب بالذهب والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد والفضل ربا» (قبل الافتراق) بالأبدان حتى لو ذهبا يمشيان في جهة واحدة أو ناما أو أغمي عليهما في المجلس ثم تقابضا قبل الافتراق صح، وقد قال عمر - رضي الله تعالى عنه -: وإن وثب من سطح فثب معه بخلاف خيار المخيرة إذ التخيير تمليك فيبطل بما يدل على الرد والقيام دليله (ولو) وصلية (اختلفا) أي المتجانسان (جودة وصناعة) إذ لا عبرة لهما لما مر في الربا (وإلا) أي وإن لم يتجانسا (فالتقابض) لما مر أن أحد جزأي العلة يحرم النساء."

(كتاب البيوع ، باب الصرف، ج:2، ص:203، ط:دارإحياء الكتب العربية)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية وفي فوائد القدوري المراد بالقبض ههنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد كذا في فتح القدير وتفسير الافتراق هو أن يفترق العاقدان بأبدانهما عن مجلسهما بأن يأخذ هذا في جهة وهذا في جهة أو يذهب أحدهما ويبقى الآخر حتى لو كانا في مجلسهما لم يبرحا عنه لم يكونا متفرقين، وإن طال مجلسهما إلا بعد الافتراق بأبدانهما .

ولو كان لأحدهما على صاحبه ألف درهم وللآخر عليه دنانير فنادى أحدهما صاحبه من وراء الجدار أو من بعيد فقال بعتك ما لي عليك بما لك علي لم يجز وكذلك لو تصارفا بالرسالة لأنهما متفرقان بأبدانهما كذا في محيط السرخسي.

ومنها) أن لا يكون في هذا العقد أجل هكذا في النهاية ."

(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه وحكمه وشرائطه، ج:3، ص:217، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (‌بيع ‌الثمن ‌بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانساشرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)."

(كتاب البيوع، باب الصرف، ج:5، ص:257، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں