بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن بزنس كرنا ٹھیك ہے یا نہیں؟


سوال

 آنلائن بزنس کرنا جائز ہے، ریسلر کے طور پر ؟

جواب

واضح رہے کہ فی زمانہ آن لائن کاروبار کی مختلف شکلیں رائج ہیں، اُن میں سے بعض جائز ہیں اور بعض ناجائز ہیں۔ اُصولی طور پر آن لائن کاروبار کے جائز ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1) جو چیز آن لائن  بیچی جارہی ہے وہ حلال ہو اور شرعاً اُس کا بیچنا جائز ہو، لہٰذا حرام اشیاء مثلاً شراب وغیرہ  یا فحاشی وجنسی بے راہ روی پھیلانے والی اشیاء  کا بیچنا،  یا ایسے طریقے پر چیزوں کا بیچنا جس میں سٹہ و جوا بازی ہو، جائز نہیں ہے۔

2) جو چیز آن لائن  بیچی جارہی ہے وہ عقد کے وقت موجود ہو، لہٰذا کسی ایسی چیز کا اشتہار لگا کر اُسے فروخت کردینا  جو ابھی موجود نہیں ہے اور اُس کی قیمت خریدار سے لے لینا جائز نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کی فروخت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے خریدار  سے فروختگی کا وعدہ کیا جائے یعنی خریدار کو یہ بتایا جائے کہ ہم یہ چیز اتنی قیمت پر دیں گے، پھر جب بات طے ہو جائے تو فروخت کنندہ (سیلر) وہ چیز خریدنے کے بعد خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اُس چیز پر قبضہ کرکے آگے اپنے گاہگ کو دے دے اور وعدے کے مطابق قیمت لے لے، تو یہ صورت جائز ہوگی ، نیز  آرڈر پر تیار کرنے کے لیے اگر پیشگی  کچھ رقم بطور ایڈوانس  لے لی  جائے تو بھی جائز ہوگا۔

3) جو چیز آن لائن بیچی جارہی ہے وہ بیچنے والے کے قبضے میں ہو  اور بیچنے والا اُسے خریدار کے  قبضہ میں دینے پر قادر بھی  ہو،لہٰذا مبیع پر قبضہ کیے بغیر صرف اشتہار لگا کر کسی چیز کو فروخت کردینا اور خریدار سے پیسے لے لینا، پھر بعد میں جاکر  وہ چیز مارکیٹ سے خرید کر خریدار کے حوالے کرنا جائز نہیں ہے۔

4) جو  چیز آن لائن اشتہار لگا کر بیچی جارہی ہے، اُس چیز کی تمام تر  اور بالکل درست تفصیلات   اس طور  پر بیان کردی جائیں کہ   اُس چیز میں کسی قسم کی جہالت نہ رہے۔ نیز  فروخت کی گئی چیز خریدار کو پہنچانے (ڈیلیوری) کا جو خرچہ ہوگا اُسے بھی واضح طور پر پہلے ہی بیان کردیا جائے، تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا  نہ ہو۔

5) خریدار سے کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی نہ کی جائے، جو تفصیلات اشتہار میں بتائی جائیں اُنہیں تفصیلات کے مطابق  چیز فراہم کی جائے۔

6) آن لائن  خرید وفروخت کے  معاملے میں کسی قسم کا سودی معاملہ  نہ کیا جائے۔ مثلاً  فروخت کی گئی چیز کی قیمت وصول کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے؛ کیوں کہ اس میں بروقت ادائیگی نہ ہونے پر سود  لگانے کا معاہدہ ہوتا ہے، بلکہ اس کی جگہ ڈیبٹ کارڈ یا کیش آن ڈیلوری کے طریقے کو استعمال کیا جائے۔

7) کوئی شرط فاسد (یعنی ایسی شرط جس کی وجہ سے مبیع یا ثمن میں ملکیت ثابت نہ ہوسکے یا جس میں بائع ومشتری  کا کوئی فائدہ ہو) نہ لگائی جائے۔

8) کسی   چیز کو آن لائن   بیچنے  کے لیے جواشتہار لگایا  جائے،  اُس اشتہار  میں جاندار کی تصاویر نہ ہوں۔

9) آن لائن  بیچی جانے والی چیز، سونا چاندی کے قبیل سے نہ ہو؛ کیوں کہ سونا چاندی کی بیع کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی مجلس میں  ہاتھ در ہاتھ  ہو۔

مذکورہ شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے اگر آن لائن کاروبار کیا جائے تو درست ہوگا۔ نیز آن لائن   تجارت کرتے وقت ایک بات یہ بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ  خریدار جو انٹرنیٹ پر بیچی جانے والی چیز کا اشتہار دیکھ کر خریداری کرتا ہے، تو اس سے خریدار کا خیارِ رؤیت ساقط نہیں ہوجاتا، یعنی خریدار کو جب وہ چیز پہنچ جائے اور وہ اُسے حقیقت میں دیکھ لے تو پھر اُسے شرعاً   یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر  اُسے وہ چیز پسند نہ آئے تو وہ اُسے واپس کردے،  خیار ِ رؤیت کے معاملے میں انٹرنیٹ  پر  کسی چیز  کو دیکھ لینا کافی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ہول سیلر  کی چیزیں آگے  نفع پر فروخت کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر آپ ہول سیلر سے مطلوبہ مال خرید کر اپنے قبضے وتحویل  میں لے کر آگے نفع پر فروخت کریں، تو یہ درست ہے اور اس طرح نفع کمانا حلال ہے، لیکن اگر آپ مطلوبہ مال کو خریدے اور قبضہ کیے بغیر صرف اشتہار لگاکر آگے فروخت کردیں اور پھر اپنے خریدار کو ہول سیلر سے ہی وہ مال پہنچوائیں(یعنی ڈیلیوری کروائیں)، تو   اس صورت میں آپ کے لیے نفع کمانا درست نہیں ہوگا۔لہٰذا اگر آپ کے لیے وہ چیز ہول سیلر سے  خرید کر اپنے قبضے میں لینے کے بعد خریدار تک پہنچانے کی کوئی  صورت نہ ہو، تو ایسی صورت میں کمیشن پر کام کرلینا چاہیے.

تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:آن لائن کام کرکے پیسے کمانے کا حکم۔

ہول سیلر سے اشیاء کی تصاویر لے کر نفع رکھ کر آگے فروخت کرنا

موطأ مالك( رحمہ اللہ )میں ہے:

"وحدثني عن مالك أنه بلغه أن رجلا أراد أن يبتاع طعاما من رجل إلى أجل، فذهب به الرجل الذي يريد أن يبيعه الطعام إلى السوق، فجعل يريه الصبر ويقول له: من أيها تحب أن أبتاع لك؟ فقال المبتاع: أتبيعني ما ليس عندك؟ فأتيا عبد الله بن عمر فذكرا ذلك له، فقال عبد الله بن عمر للمبتاع: «لا تبتع منه ما ليس عنده، وقال للبائع ‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس عندك".

(‌‌باب العينة وما يشبهها،٦٤٢/٢،ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن داود بن صالح المدني، عن أبيه، قال: سمعت أبا سعيد الخدري، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إنما ‌البيع ‌عن ‌تراض".

(باب بيع الخيار،٧٣٧/٢،ط : دار إحياء الكتب العربية)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين) لما روى ابن عمر رضي الله عنهما «أن النبي صلى الله عليه وسلم سبق بالخيل وراهن»، ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي، فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز ‌لأن ‌القمار ‌من ‌القمر الذي يزاد تارة، وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والانتقاص في كل واحد منهما فصار قمارا".

‌‌[ وهبت مهرها لزوجها فماتت فطالب ورثتها به وقالوا كانت الهبة في مرض موتها،٢٢٧/٦،ط : المطبعة الكبرى الأميرية]

المعتصر من المختصر من مشكل الآثار میں ہے:

"‌‌في النهي عن الثنيا وبيع الغرر والحصا :وروى أبو الزبير وسعيد بنمينا عن جابر بن عبد الله أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن المحاقلة والمزابنة والمخابرة" قال أحدهما: والمعاومة وقال الآخر: عن السنين ونهى عن الثنيا قال: ورخص في العرايا معنى النهي عن بيع الثنيا يريد الثنيا المجهولة بدليل ما روي عن عطاء عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثنيا حتى يعلم وروي عن أبي هريرة قال نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر وعن ‌بيع ‌الحصاة ‌بيع ‌الحصاة كان من بيوع الجاهلية التي يتعاقدونها فكان أحدهم إذا أراد يملك ثوب صاحبه بعوض ألقى عليه حصاة أو حجرا فاستحقه بذلك عليه ولم يستطع رب الثوب منعه من ذلك فنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ورد البيع إلى اختيار المتبايعين عند نزول قوله تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ} فرد الأمر إلى رضا أصحابها في بيعها وإمساكها وإن خلافه أكل المال بالباطل".

(‌‌كتاب البيوع،٣٤٤/١ط : مكتبة سعد الدين)

البناية شرح الهداية میں ہے:

"وكل ‌ما ‌أورث ‌خللا ‌في ‌ركن ‌البيع فهو مبطل، وما أورثه في غيره كالتسليم والتسلم الواجبين به والانتفاع المقصود منه والإطلاق عن شرط لا يقتضيه وغير ذلك فهو مفسد".

‌‌[كتاب البيوع،تعريف البيع الفاسد،١٣٩/٨،ط : دار الكتب العلمية]

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے:

"المراد بالفاسد: الممنوع مجازا عرفيا فيعم الباطل والمكروه، وقد يذكر فيه بعض الصحيح :تبعا، وكل ‌ما ‌أورث ‌خللا ‌في ‌ركن ‌البيع فهو مبطل، وما أورثه في غيره فمفسد (بطل بيع ماليس بمال) والمال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع".

(‌‌باب البيع الفاسد،٤١٣،ط : دار الكتب العلمية)

فقط اولله أعلم 


فتوی نمبر : 144506101464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں