بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن قرآن پڑھانا


سوال

آج کل آن لائن کاروبار کا کافی چرچا ہے جس کو دیکھو آن لائن کام کر رہا ہے یہاں تک کہ بچوں کو قرآن کی تعلیم ناظرہ بھی آن لائن ہو رہی ہے ، زیادہ تر جو بچے ہوتے ہیں وہ پاکستان سے باہر کے ہوتے ہیں کیونکہ ان ممالک میں حافظ قرآن یا قاری حضرات باآسانی میسر نہیں ہوتے ، اس لئے ان بچوں کے والدین قرآن کی تعلیم کے لیے آن لائن حافظ یا قاری حضرات کی خدمات حاصل کرتے ہیں جس کا وہ اچھا خاصا معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ۔1 . کسی بھی آن لائن کاروبار کے بارے شریعت کیا کہتی ہے؟2. خاص کر آن لائن قرآن کی تعلیم کے بارے شریعت کیا کہتی ہے ؟3 ۔ جو قاری حضرات یا حافظ حضرات براہِ راست اس آن لائن کاروبار سے منسلک ہیں ان کے بارے شریعت کیا کہتی ہے ؟4. اور جو قاری حضرات یا حافظ حضرات کسی آن لائن کمپنی میں ملازمت کے طور پر ماہانہ تنخواہ یا کمیشن کے ساتھ اس کاروبار سے منسلک ہیں تو اس بارے شریعت کیا کہتی ہے ؟5. اور جو بچے آن لائن قرآن پاک سیکھ رہے ہیں ان کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟ برائے مہربانی تفصیلی جواب عنایت فرمائیں کیونکہ میں بذاتِ خود یہی آن لائن کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔

جواب

 ٹیوشن پڑھنے، پڑھانے کی تعبیرکاروبارسے نہیں کی جاسکتی ، یہ کوئی مال ومتاع نہیں ہے جس کی خرید و فروخت ہو، ٹیوشن تو ایک عقد اجارہ کا نام ہے جس میں تعلیم کے عوض ایک متعینہ فیس بطور اجرت دی اور لی جاتی ہے، بوقت ضرورت، شرائط کی رعایت کے ساتھ آن لائن قرآن کی تعلیم دی جاسکتی ہے اور اس پر مقررہ فیس (اجرت) لی جاسکتی ہے لیکن محض روپیہ کمانے کی نیت نہیں ہونی چاہئے، قرآن پڑھنا، پڑھانا خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہئے، ٹیوشنوں کے حصول کے لیے مارکیٹنگ کرنا اور بھاوٴ تاوٴ کے ذریعہ ریٹ بڑھانا وغیرہ یہ مناسب نہیں اس سے احتراز کرنا چاہئے،کوشش تو یہی کرنی چاہیے کہ قرآن کی تعلیم  کسی مستند قاری سے  بالمشافہ حاصل کی جائے،  اسی طرح قرآن پڑھانے والا بھی آن لائن کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر لوگوں کو پڑھائے،اس طریقہ  میں برکت بھی ہے اور یہ تعلیمی افادہ اور استفادہ کے لیے موزوں بھی ہے، تاہم اگر کوئی ضرورت ہو یعنی کسی جگہ صحیح قرآن  پڑھانے والا دست یاب نہ ہو یا اور کوئی عذر ہو  اور انٹرنیٹ کے ذریعے قرآن پڑھایا جائے، یہ جائز ہے اور اس پر مقررہ اجرت لینا  بھی جائز ہوگا، لیکن  اس میں  درج ذیل باتوں کی رعایت رکھنی ضروری ہے:

قرآن کی تعلیم کے لیے ویڈیو کالنگ کا استعمال نہ کیا جائے،شریعت مطہرہ میں کسی  بھی  جان دار  چیز کی تصویر کشی   کرنا حرام ہے ، خواہ وہ  تصویر کشی کسی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہو یا غیر ڈیجیٹل کیمرے سے  بہر صورت ناجائز اور حرام ہے، ویب کیمرے کا استعمال بھی شرعاً تصویر کشی کے حکم میں ہے۔اس لیے آن لائن  تعلیم وتد ریس کےلیے  یہ بنیادی شرط ہے کہ تعلیم  محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال )  کے ذریعہ ہو ،ایک  دوسرے کی تصویر  نظر نہ آئے یعنی تعلیم کیمرے(ویڈیوکال ،لائیو ویڈیووغیرہ )کے ذریعہ  نہ  ہو ،اگر دوران تدریس  کیمرے کا ستعمال ہو تو  کیمرے کا رخ ( فوکس )غیرجاندار  چیز ( بورڈ ، کتاب وغیرہ )   پر ہو ،کیمرے کے سامنے  استاد یا طالب علم/طلبہ کا آنا جائز نہیں ہے ۔

پڑھنے والی  قریب البلوغ یا بالغ لڑکیاں ہوں تو    اگر آن لائن پڑھنے والی صرف ایک طالبہ ہے تو اگرچہ یہ صورت مکمل طور پر خلوت کی نہیں ہے، لیکن حکماً خلوت ہے ، فتنہ میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے؛ لہذا ایک وقت میں صرف ایک طالبہ کو آن لائن پڑھانا فتنہ کے احتمال کی وجہ سے  درست نہیں ہوگا، ہاں اگر اس ایک طالبہ کے ساتھ دوران درس اس طالبہ کا کوئی محرم مرد یا کوئی خاتون وغیرہ موجود ہو تو یہ صورت جائز ہوگی۔

اور اگر آن لائن تدریس کے دوران دو یا اس سے زیادہ طالبات ہوں تو ان طالبات کو مرد استاذ کا پڑھانا (حجاب وستر اور تعلیم کی) دیگر شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے جائز ہوگا، نیز جائز صورتوں میں بھی دورانِ درس  غیر ضروری (یعنی  سبق سے ہٹ کر)  باتوں سے قطعی طور پر  اجتنا ب ہو ۔

اگر اس کے علاوہ آن لائن کاروبار کے بارے میں سوال کرنا مقصود ہو تو وضاحت کرکے سوال ارسال کردیجیے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قوله تعالی : (وإذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء حجاب) : قد تضمن حظر رویة ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، وبین بہ ان ذلک اطھر لقلوبھم وقلوبھن؛ لان نظر بعضھم الی بعض ربما حدث عنہ المیل والشھوة، فقطع اللہ بالحجاب الذی اوجبہ ھذا السبب."

(ج3،ص:543،ط:قدیمی)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"دس سال کی عمر میں تفریق مضاجع کا حکم فرمایا گیا ہے، اس حکم کی علت احتمال شہوت ہے اور اس عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ضرب کا حکم فرمانا بھی اس امر کا مشعر ہےکہ اس عمر کے بچے بمنزلہ بالغین ہیں۔

قال العلامہ علی القاری رحمہ اللہ تعالیٰ : لانھم بلغوا او قاربوا البلوغ۔(مرقاة المفاتيح ص۔۱۱۵)."

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ". 

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1،ص:647، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"ویفتی الیوم بصحتہا ای (الاجارة) علی تعلیم القرآن والفقہ والامامة والاذان."

(الرد المحتار علی الدر المختار،ج:5،ص:46،ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں