بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کسی پروڈکٹ کو ریسیل کرنا


سوال

کیا آن لائن کسی پروڈکٹ کو ریسیل کر سکتے ہیں،  مثلاً ایک چیز کسی کمپنی  کی   200   روپے  کی  ہے ، اور  وہ کمپنی  مجھے  کہے کہ آپ  اسے  آگے  بیچو! چاہے  250  میں یا 300 میں، ڈیلیوری ہمارا کام ہے، آپ کو کمیشن ملے گا، اور وہ چیز میرے قبضے میں نہ ہو تو ایسی صورت  میں یہ  جائز  ہے  کہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی حیثیت کمپنی کے وکیل کی ہے ،یعنی سائل کمپنی کی طرف سے اس چیز کے بیچنے کا وکیل ہے ،اور وکیل کے لیے  بطور معاوضہ   کمیشن یا تنخواہ وصول کرنا شرعاً جائز ہے، لیکن  خریدنے والے سے  کمپنی کی متعینہ قیمت سے زائد  وصول کرنا جائز نہیں ،اور اگر زائد قیمت میں فروخت کیا تو وہ زیادتی کمپنی کو لوٹانا ضروری ہوگا، کمیشن ایجنٹ یہ زائد رقم اپنے پاس نہیں رکھ   سکتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ نے  کمپنی کی جو پروڈکٹ آگے سیل کی یہ کمپنی کا وکیل ہونے کی حیثیت سے سیل کی ،اور وہ پروڈکٹ موکل کے قبضہ میں ہے ، لہذا اسے آن لائن سیل کرنا جائز ہے،لیکن کمپنی نے اس پروڈکٹ کی جو قیمت متعین کی ہے اس سے زائد قیمت  خریدار سے وصول کرنا جائز نہیں ، اور اگر زائد قیمت وصول کی ہے تو اسے کمپنی کو لوٹانا ضروری ہے۔

نیز سائل کو چاہیے کہ وہ کمپنی سے اپنی اجرت پہلے طے کرلے،  اگر کمپنی یوں اجرت طے کرے کہ  200 کی چیز 250 میں فروخت کروگے تو 50 روپے آپ کی اجرت ہوگی، تو سائل کے لیے 250 سے زیادہ پر بیچنے کی اجازت نہیں ہوگی، اس صورت میں 50 روپے مقررہ اجرت لی جاسکتی ہے، اور اگر کمپنی نے کہا کہ 200 سے اوپر جتنی اضافی قیمت میں فروخت کروگے وہ آپ کی اجرت ہوگی تو یہ اجرت مجہول ہے، اس صورت میں مجموعی رقم کمپنی کو دینا ہوگی۔ الغرض اجرت پہلے طے کرکے لے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(  كتاب الاجارة ،مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ج 6 ،ص:63، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے: 

"و أما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

وتحته في الرد:(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(کتاب البیوع، فصل في الفروع ، ج: 4، 560، ط: ایچ، ایم، سعید)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

’’(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟(الجواب) : نعم وفي فوائد صاحب المحيط الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب ثم قال ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ومثله في الفصولين وشرح التنوير للعلائي من البيع.‘‘

(کتاب البیوع، ج: 1، صفحہ: 247، ط:  دار المعرفة)

درر الحکام میں ہے :

"مصارف الدلالة - ‌إذا ‌باع ‌الدلال ‌مالا ‌بإذن ‌صاحبه ‌تؤخذ ‌أجرة ‌الدلالة ‌من ‌البائع ‌ولا ‌يعود ‌البائع ‌بشيء ‌من ‌ذلك ‌على ‌المشتري لأنه العاقد حقيقة وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له أما إذا كان الدلال مشى بين البائع والمشتري ووفق بينهما ثم باع صاحب المال ماله ينظر فإن كان مجرى العرف والعادة أن تؤخذ أجرة الدلال جميعها من البائع أخذت منه أو من المشتري أخذت منه أو من الاثنين أخذت منهما " انظر المادة 45 " أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبه فالبيع المذكور موقوف حسب المادة 268 ويصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال وليس للدلال أجرة في ذلك لأنه عمل من غير أمر فيكون متبرعا."

(کتاب البیوع ، فصل فی المصارف المتعلقة لتسليم المبيع ،ج :1 ،ص:272 ط : دار الجيل)

فقط واللہ اعلم



فتوی نمبر : 144408100132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں