بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولڈ ہوم ادارہ والوں کا فیس لینے کا حکم


سوال

میں ایک بزرگوں کا اولڈ ہوم ادارہ چلاتی ہوں،اس میں کچھ ایسے بزرگ ہوتے ہیں کہ جن کے گھر والے ان کو اپنی مرضی سے یہاں داخل کرواتے ہیں اور ان کی ہر ماہ کی ایک مناسب فیس بھی ہوتی ہے، جس سے  بلڈنگ کا کرایہ اور کھانے پینے کا ، بجلی گیس وغیرہ کے بِل اور سٹاف کی اجرت دی جاتی ہے ۔مجھے یہ پوجھنا ہے کیا اسلام میں یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دین اسلام نے والدین کے ساتھ  حسن سلوک اور رواداری کا حکم دیاہےاور اولاد پر ان کی خدمت کو لازم قراردیا، خاص کر جب والدین بوڑھے ہوجائے اور خدمت کے محتاج ہوتو اس وقت اولاد کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ان کاخیال رکھے اور ان کاخرچہ برداشت کرےاور حتی الامکان ان کو راحت پہنچانے کی کوشش کرے،  یہاں تک کہ  ان کی خدمت کو دنیا وآخرت کی نجات وترقی اور جنت کے حصول کاذریعہ قراردیا۔ اور ان سے اعراض وبے توجہی دنیاوآخرت کی ناکامی اور جہنم میں جا نے کا ذریعہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ذلیل وخوارہو، وہ شخص ذلیل وخوارہو، وہ شخص ذلیل وخوارہو۔(تین مرتبہ یہ بددعافرمائی) عرض کیا گیا: کون یارسول اللہ ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کوبڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امام نوویؒ فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کے بڑھاپے اورکمزوری کے زمانے میں ان کی خوب خدمت کی جائے اور ان کے مکمل اخراجات اٹھائے جائیں اور یہی چیزجنت میں دخول کاذریعہ ہے۔ان کی خدمت اوراخراجات میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیناجنت سے محرومی کاذریعہ ہے۔

لیکن  بدقسمتی سے موجودہ دور میں والدین سے بے توجہی بڑھتی ہی جارہی ہے، کیونکہ اس وقت دنیاپرمغربی تہذیب کابول بالا ہے اور اس تہذیب کی بنیاد خودغرضی اور مفادپرستی ہے، اور نوبت یہاں تک ہوگئی ہے کہ جب والدین کی عمر کچھ زیادہ ہونےلگتی ہے اور بوڑھے ہوجائے تو ان کی خدمت، دیکھ بال اور حسن سلوک کرنے کے بجائے ان کو گھر سے نکال دیاجاتاہےاور ان کو ایسی جگہ بھیج دیتے ہیں کہ جہاں ان کی صحیح نگہداشت نہیں ہوپاتی جیسے کہ ہونی چاہیے، جو آج کل 'اولڈ ایج ہاؤس' کے نام سے جاناجاتاہے۔ چنانچہ پہلے مغربی ملکوں میں عمردراز لوگوں کےلیے یہ ہاسٹل بنائےگئے،  لیکن اب پاکستان میں بھی جگہ جگہ ایسے ہاسٹل بن گئے  ہیں ، جن میں نوجوان اپنے بزرگوں کو داخل کرتے ہیں۔ان ہاسٹلوں کے وجودمیں آنے کے بعد  ایک پہلو یہ  ہے کہ ان عمردراز حضرات کو ایک جگہ اپنی ضروریات کی چیزیں مہیا ہوجاتی ہیں اور اپنے ہم عمر لوگ مل جاتے ہیں۔لیکن دوسرا پہلو یہ نکلتا ہے(جو قابل غور بھی ہے)  کہ وہ اپنے رشتہ داروں کی محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ اپنے بال بچوں کے درمیان رہے، اولاد اور اولاد کی اولاد کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، لیکن ایسے ہاسٹلوں میں ان کی یہ خواہش ایک حسرت بن جاتی ہے۔

البتہ مجبوری کی صورت میں معذور اور بوڑھے حضرات کاہاسٹل کی طرف منتقل ہونے کی مختلف صورتیں  اور ان  کے احکام کاخلاصہ ملاحظہ  کیجیے:

1۔  اولاد گھر میں موجود ہو اوربوڑھے ماں باپ  کی خدمت کرنے میں کوئی دقت نہ ہو، نیز ان کو گھر میں رہنے کی خواہش ہوتوایسی صورت میں اولاد پر بوڑھے والدین کی خدمت واجب ہے۔ ہاسٹل کے حوالہ کرنا جائز نہیں۔
2۔ اولاد گھر میں موجودنہ ہو اور باپ کی خواہش گھر میں رہنے کی ہو تو اگر اولاد مستطیع ہو تو بوڑھے ماں باپ کےلیے خادم کا انتظام کرنا واجب ہے۔ ہاسٹل کے حوالہ کرنا جائز نہیں۔
3۔ اگر گھر میں بوڑھے باپ کے ساتھ نامناسب برتاؤ ہوتا ہو اوراس کی وجہ سے وہ ہاسٹل میں منتقل ہونا چاہتا ہو تو اولاد پر لازم ہے کہ ماحول تبدیل کریں، خوشگوار فضا بنائیں اور بوڑھے باپ کو راحت پہنچائیں اور انہیں ہاسٹل منتقل نہ ہونے دیں۔
4۔ اگر اولاد معاشی مجبوری یا کسی اور حقیقی مجبوری کی وجہ سے یا تنگ دستی کی بنیاد پر خادم نہیں رکھ سکتی ہو، یا اولاد ہی نہ ہو اور دوسرے رشتہ دار صحیح خدمت نہیں کر پارہے ہوں تو پھر ان کے لیے ہاسٹل منتقل ہونے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

(مأخوذ: ماہنامہ بینات، جمادی الاخری1443ھ)

تاہم ہاسٹل بنانے کی صورت میں ادارہ والوں کا  فیس لیناجائز ہے کہ جس کے ذریعہ متعلقہ اخراجات  پورے کیے جاسکے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

 "وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا"(بني اسراءيل، 23)

ترجمہ: "اور تیرے رب نے حکم کردیاہےکہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیاکرواگرتیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بوڑھاپےکو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی ہوں مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا"

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « رغم أنف ثم رغم أنف ثم رغم أنف. قيل: من يا رسول الله؟ قال: من أدرك أبويه عند الكبر أحدهما أو كليهما، فلم يدخل الجنة »."

(‌‌كتاب البر والصلة والأداب، ‌‌باب تقديم بر الوالدين على التطوع بالصلاة وغيرها، ج: 3، ص: 1582، رقم: 2551، ط: بشري)

'شرح الطیبی'  میں ہے:

"قال الشيخ محيي الدين: معناه أن برهما عند كبرهما وضعفهما بالخدمة والنفقة وغير ذلك سبب لدخول الجنة، فمن فاته قصر في ذلك فاته دخول الجنة."

(‌‌كتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الأول، ج: 9، ص: 146، رقم: 4912، ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں