میری والدہ حیات ہیں، ان کے پاس سونا ہے، انہوں نے امانت رکھوایا ہے، (اپنی بیٹی کے پاس)، کتنا سونا ہے؟ اسی بات کو والدہ راز رکھ رہی ہیں، کسی کو اس کی مقدار کا نہیں بتا رہی ہیں، اب دوسرے بھائی بہن زہرہ پر زبردستی کر رہے ہیں کہ اس امانت کو کھول کر بتاؤ کہ اس میں سونا کتنی مقدار میں ہے، امی کو پتہ نہ چلے (حالاں کہ والدہ نے سختی سے منع کیا ہے)
اب کیا بہن بھائی کا زہرہ پر یا والدہ پر پریشر ڈالنا کہ بتاؤ کتنی مقدار ہے؟ یہ جائز ہے یا نہیں؟ اولاد میں سے والدہ کو کوئی کچھ نہیں دیتا، والدہ سارا خرچہ خود کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ شریعت ِ مطہرہ میں اولاد کو والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا اور ان سے حسن سلوک کا حکم ہے اور خاص طور پر ان کے بڑھاپے کو ذکر فرماکر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کو ”اُف“ تک نہ کہو اور نہ ہی ان کو تکلیف دو اور جھڑک کر ان سے بات نہ کرو۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
" وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا." [الإسراء:23]
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سے مقامات پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان سے حسن سلوک کا حکم ہے، جہاں ان کی اطاعت، خدمت و فرمانبرداری جنت میں جانے کا سبب ہے، وہیں ان کی نافرمانی اور تکلیف پہنچانا اور ان کو ناراض کرنا جہنم میں جانے کا سبب ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اولاد کا اپنی والدہ کو مجبور کرنا یا اس بہن کو مجبور کرنا جس کے پاس والدہ نے اپنا زیور امانت کے طور پر رکھوایا ہے اور دیگر اولاد کو بتانے سے منع کیا ہے، ان کی زندگی میں اولاد میں سے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اس کے متعلق جستجو کرے یا اس پر نظر رکھے یا اپنا حق سمجھتے ہوئے اس میں سے کسی چیز کا مطابلہ کرے۔
البتہ اگر یہ خدشہ ہو کہ والدہ کے انتقال کی صور ت میں بیٹی پر یہ شک کیا جائے کہ مقدار میں کمی بیشی کی گئی ہے، یا اس طرح کی بدگمانی ہو سکتی ہے اور والدہ بھی اپنے سونے کی مقدار کو ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، تو ایسی صورت میں اس کا یہ حل مناسب ہے کہ والدہ کی رضامندی اور اس کی تصدیق سے مقدار سونا کی تحریر تیار کرواکر محفوظ کرلی جائے، تاکہ اس طرح کی بدگمانی بھی پیدا نہ ہو۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه كيفما يشاء."
(الباب الرابع في الرهن، الفصل الرابع في بيع الرهن، ج:2، ص:207، ط:دار الجيل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610101047
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن