بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد ہونے پر ایک مہینہ کے روزہ کی نذر / نذر کے روزے رکھنے کی استطاعت نہ ہوتو فدیہ کا حکم


سوال

 میرے ایک بھتیجے کی اولاد نہیں ہے، میرے والد صاحب نے منت مانی کہ اگر میرے اس پوتے کی اولاد ہو جائے تو میں ایک مہینہ  کے روزے رکھوں گا، اب ان کے پوتے کی بیوی امید سے ہیں اور انہوں نے منت پوری کرنے کیلئے روزے رکھنا شروع کیے ،مگر بمشکل ایک ہی روزہ مکمل کیا اور مزید روزے رکھنے  کی اب ہمت نہیں ہے  ان میں؛ کیونکہ ان کی عمر کافی زیادہ ہے۔

براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس صورت میں  وہ بقیہ روزوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں؟ اگر کفارہ دے سکتے ہیں تو ایک روزے کے بدلے کفارے کی مالیت کیا ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں جب   سائل کے والد نے مذکورہ الفاظ   کہے کہ ــ’’اگر میرے اس پوتے  کی اولاد ہوجائےتو میں ایک مہینہ کے روزے رکھوں گا‘‘  تو اس سے نذر منعقد ہوگئی ہے ،لہذا اگر  مذکورہ پوتے کے ہاں اولاد ہوجائے  تو سائل کے والد پر اایک ماہ کے روزے رکھنا لازم ہوں گے ۔

البتہ  یہ بات بھی واضح رہے کہ محض حمل ٹھہرنے سے شرط (پوتے  کا ہاں اولاد کا ہونا ) پوری نہیں ہوگی ،جب تک کہ بچہ پیدا نہ ہوجائے،نیز شرط پائے جانے   سے پہلے نذر کے روزے رکھنے سے نذر پوری بھی  نہیں ہوگی، صورتِ مسئولہ  میں  چوں کہ ابھی تک  سائل  کے بھتیجے کے ہاں  بچہ پیدا نہیں ہوا ہے ،لہذا سائل کے والد نے جو روزہ رکھا ہے وہ نذر کا روزہ شمار نہیں ہوگا ،نفلی روزہ ہوگا ،نذر کےمکمل  ایک ماہ کے روزے شرط پائے جانے کے بعد رکھنا لازم ہوں گے ۔

باقی اگر سائل کے والد نے مطلقًا ایک مہینہ کے روزے رکھنے  کی نذر مانی تھی ،لگاتار،  پے درپے رکھنے کی  قید نہیں لگائی تھی اور  نہ  نیت کی تھی   تو اس صورت میں سائل کے والد  پر مطلقًا ایک  مہینے کے روزے رکھنا ضروری ہو گا ،پے درپے رکھنا ضروری نہیں ہوگا ،لہذا حسبِ توفیق اور حسبِ سہولت تھوڑے تھوڑے  کرکے روزے رکھ لیں ،اگر فی الحال ادا کرنے کی ہمت نہ ہو نے کی وجہ سے روزے نہ رکھ  سکیں   اور بعد میں روزے رکھنے کی امید ہو تو   بعد میں جب ہمت ہو  تب   رکھ لیں ۔

تاہم اگر وہ بڑھاپے یا کسی دائمی بیماری کی وجہ سے روزے رکھنے پر بالکل قادر نہیں ہیں تو ہر روزے کے بدلہ ایک فدیہ دے دیں ، زندگی میں روزوں کے فدیہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ  اگر کوئی  شخص ایسا بوڑھا  ہوگیا کہ روزہ رکھنے کی طاقت  نہ رہی  اور آئندہ بھی روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہیں ، یا ایسا بیمار ہوا کہ  روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہی اور آئندہ صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہے،  تاہم فدیہ ادا کرنے کے بعد  اگر موت سے پہلے  روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور وقت بھی ملے تو  ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا،  فدیہ صدقۂ نافلہ سے تبدیل ہوجائے گا۔ 

ایک روزے  کا فدیہ  ایک صدقۃ الفطر  کے برابر  یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :

"(وأما) كيفية ثبوته فالنذر لايخلو إما إن أضيف إلى وقت مبهم، وإما إن أضيف إلى وقت معين، فإن أضيف إلى وقت مبهم بأن قال: لله علي أن أصوم شهرا ولا نية له، فحكمه هو حكم الأمر المطلق عن الوقت ... ثم في النذر المضاف إلى وقت مبهم إذا عين شهرا للصوم فهو بالخيار: إن شاء تابع، وإن شاء فرق ... بخلاف ما إذا قال: لله علي أن أصوم شهرا متتابعا، أو قال: أصوم شهرا ونوى التتابع فأفطر يوما - أنه يستقبل؛ لأن هناك أوجب على نفسه صوما موصوفا بصفة التتابع، و صح الإيجاب؛ لأن صفة التتابع زيادة قربة لما يلحقه بمراعاتها من زيادة مشقة، وهي صفة معتبرة شرعًا ورد الشرع بها في كفارة القتل، والظهار، والإفطار، واليمين عندنا، فيصح التزامه بالنذر، فيلزمه كما التزم، فإذا ترك فلم يأت بالملتزم؛ فيستقبل كما في صوم كفارة الظهار والقتل."

(5/ 94ط:دار الكتب العلمية)

وفي البحر الرائق:

"فإذا نذر اعتكاف شهر لزمه شهر بالأيام و الليالي متتابعًا في ظاهر الرواية بخلاف ما إذا نذر أن يصوم شهرًا لايلزمه التتابع، كذا في البدائع و فتاوى قاضي خان، و في الخلاصة من الأيمان من الجنس الثالث في النذر: و لو قال: لله علي صوم شهران قال: صوم شهر بعينه كرجب يجب عليه التتابع، و لو أفطر يومًا يلزمه الاستقبال كما في رمضان و إنما يلزمه القضاء و إن قال: لله علي صوم شهر و لم يعين إن قال متتابعًا لزمه متتابعًا و إن أطلق لايلزمه التتابع و في الاعتكاف يلزمه بصفة التتابع في المعين و غير المعين ثم في الصوم والاعتكاف أفسد يوما إن كان شهرا معينا لا يلزمه الاستقبال وإن كان غير معين لزمه. اهـ."

(2/ 329ط:دار الكتب العلمية)

وفي الفتاوى الهندية :

"و لو قال: لله علي أن أصوم شهرًا متتابعًا لزمه التتابع، و إن أطلق يخير، و إن عين الشهر فأفطر يومًا قضاه، و لايستقبل، و إن أفطر كلّه يخير في القضاء بين التفرق و التتابع، كذا في الزاهدي."

(1/ 210ط:دار الفكر)

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية :

"إن نذر أن يصوم أيامًا، أو شهرًا، أو سنةً، و لم يعين، و شرط التتابع لزمه اتفاقًا، و كذا لو نذر أن يصوم شهرًا معينًا كرجب، أو سنةً معينةً، لزمه التتابع في صيامها كذلك.

أما لو نذر شهرا ، أو سنة غير معينين ، ولم يشترط التتابع ، فقد ذهب الحنفية والمالكية والشافعية ، وهو رواية عند الحنابلة إلى : أنه لا يلزمه التتابع ، وفي رواية أخرى عند الحنابلة يلزمه التتابع ، وروي عن أحمد كذلك فيمن قال : لله علي أن أصوم عشرة أيام : يصومها متتابعة."

(10/ 129ط:وزارة الأوقاف الشؤن الإسلامية)

وفي المحيط البرهاني:

"إذا نذر أن يصوم يوم كذا ما عاش، ثم كبر، وضعف عن الصوم يطعم مكان كل يوم مسكينًا، وإن لم يقدر لعسرته يستغفر الله تعالى، فإن ضعف عن الصوم في ذلك اليوم لمكان الصيف كان له أن يفطر، وينتظر حتى إذا كان في الشتاء صام يوما مكانه؛ لأنه لو سافر في ذلك اليوم يفطر، ويصوم مكانه فكذا ههنا؛ لأن المرض والسفر كلاهما سبب العذر، ومن جنس هذه المسألة إذا قال: لله علي أن أصوم أبدًا، فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة كان له أن يفطر؛ لأنه لو لم يفطر يقع الخلل في جميع الفرائض، ويطعم كل يوم نصف صاع من الحنطة؛ لأنه متيقن أنه لا يقدر على قضائه أبدًا".

(2 / 405، الباب  السادس عشر فی صدقۃ الفطر،  ط:  دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں