بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولادِ نرینہ کے لیے تعویذ کرنا


سوال

کیا نرینہ اولاد کے لیے تعویذ کرانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تعویذات کا استعمال چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

(1)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو۔

(2) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو۔

(3)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو۔

(4)  تعویذ دینے والا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔

(5)  تعویذ دینے والے کا اپنا عقیدہ درست ہو اور تعویذات وغیرہ سیکھتے یا کرتے وقت کوئی شرکیہ یا ناجائز عمل نہ کرتا ہو۔ 

(6) کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔

         لہذا   نرینہ اولاد کے حصول کے لیے ایسا تعویذ  جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہو اس کا  استعمال کرنا شرعاً درست ہے،   اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثرِ حقیقی  سمجھا جائے یا تعویذ دینے والا غیرمسلموں سے سیکھ کر یا شرکیہ یا ناجائز عمل کرکے تعویذ کرتاہو تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

         دوسری طرف یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اولادِ نرینہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، لیکن بیٹیاں  بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو صنفوں میں پیدا فرمایا ہے،   مرد اور عورت۔   پھر کسی کو اللہ تعالیٰ نے صرف بیٹیاں عطا فرمائی ہیں اور کسی کو صرف بیٹے عطا فرمائے ہیں اور کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا فرمائے ہیں اور کسی کو نہ بیٹے عطا فرمائے اور نہ بیٹیاں عطا فرمائی ہیں۔ یہ تقسیم بھی خالصۃً اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔  مرد عورتوں کے محتاج ہیں اور عورتیں مردوں کی محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے دنیا میں ایک ایسا نظام قائم فرمایا ہے جس میں دونوں کی ضرورت ہے،  اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

        جاہلیت کے زمانہ میں لوگ  عورتوں پر طرح طرح ظلم کرتے تھے، لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں مناتے تھے اور بیٹی پیدا ہونے پر منہ بسورتے تھے، اسے زندہ درگور کردیتے تھے، اس لیے اسلام نے اس کا انتہائی سختی سے رد کیا اور جا بجا بیٹیوں کے فضائل سنائے، اور ان کو عزت بخشی۔

        ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ سرکار دو عالم جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں،  یا تین بہنیں ہوں،  اور وہ ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے،  ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اچھا معاملہ کرے،  (ان کے وجود کو اپنے لیے ذلت و خواری کا باعث نہ سمجھے) تو اس کی بدولت وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔ (ترمذی) 

          خلاصہ یہ کہ اولادِ نرینہ کے لیے دعا  کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، لیکن بیٹیوں کی پیدائش پر  نا خؤش ہونا اور دل میں نا شکری  کی کیفیت کا پیدا ہونا شرعاً مذموم ہے؛ لہذا  معاشرے میں جو لوگ ایسا جذبہ رکھتے ہوں ان کی اس کیفیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں