پوچھنا یہ ہے کہ اگر زکات ادا کرنے والے کا وکیل خود مستحق زکات ہو توکیا وکیل اس زکات کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر موکل نے وکیل کو زکات کی رقم دیتے ہوئے یہ کہا ہو کہ جہاں چاہیں خرچ کر دیں تو ایسی صورت میں اگر وکیل زکات کا مستحق ہو تو خود بھی زکات کی رقم استعمال کر سکتا ہے،بصورتِ دیگر خود استعمال نہیں کرسکتا، اور اگر موکل نے زکات کی رقم کسی خاص فقیر کو دینے کا کہا ہو تو اُسی فقیر کو دینا لازم ہو گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)
تبيين الحقائق میں ہے:
"لو قال لرجل ادفع زكاتي إلى من شئت أو أعطها من شئت فدفعها لنفسه لم يجز وفي جوامع الفقه جعله قول أبي حنيفة وقال وعند أبي يوسف يجوز ولو قال ضعها حيث شئت جاز وضعها في نفسه."
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج:1، ص:305، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"سوال:زکاۃ یا صدقہ کوئی کسی کو اس واسطے دے کہ جہاں مصرف ہواورجس کو مستحق دیکھے دیدے،درحقیقت وہ جن کو ادائیگی کےلیے دی جاتی ہے وہ خود مستحق ہے لیکن اس دینے والے کو اس کے مستحق اور مصرف ہونے کا علم نہیں،کیاوہ مستحق رقم زکاۃ خود لے سکتا ہے یا نہیں،یا صرف دوسرے مستحقین پر تقسیم کردے؟اس بات کا اس کو اختیار تھا کہ جس کو چاہے دے اور جتنادے لیکن مستحق کو دے۔
الجواب حامداًومصلیاً:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس صورت میں اس کو خود رکھنا درست نہیں۔"
(زیرِ عنوان:وکیل خود مستحق زکاۃ ہو توکیا وہ زکاۃ کی رقم رکھ سکتاہے؟، کتاب الزکاۃ، باب ادا الزکاۃ، ج:9، ص:491، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101581
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن