بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آفیسر کے کہنے پر آفس کے پرنٹر سے ذاتی ضرورت کے لیے پرنٹ کرنا


سوال

اپنے آفس میں کمپیوٹر اور پرنٹر میرے استعمال میں ہے جو مجھے آفس کے استعمال کے لیے دیا گیا ہے اور میری کوشش ہوتی ہے پرنٹر پر کوئی بھی پرائیوٹ پرنٹ نہیں نکالوں، صرف آفس کے لیے ہی استعمال کروں، اگر کوئی بھی پرائیوٹ  پرنٹ نکالوں تو  اس کے پیسے  مہینہ کے آخر میں  حساب کرکے جمع کرادیتا ہوں،  بعض اوقات میرے آفیسر اپنا کوئی پرائیوٹ  پرنٹ نکالنے کا کہتے ہیں اور پیجز بھی بعض اوقات بہت زیادہ ہوتے ہیں تو ایسی میں بھی کیا پیسے مجھے جمع کروانا ہوں گے؟  آفیسر ہونے کی وجہ سے میں انہیں انکار بھی نہیں کرسکتا ہوں،  لیکن  دل مطمئن نہیں ہوتا   کہ پیپر اور پرنٹر وغیرہ میری ذمہ داری میں ہے، ایسی صورت میں میرے لیے کیا حکم  ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر آفس انتظامیہ کی طرف سے صراحتاً یا عرفاً اجازت ہو کہ  آفس کے پرنٹر کو  ملازمین یا آفیسرز عرف کے مطابق   جائز  ضرورت میں استعمال کرسکتے ہیں خواہ آفس کی ہو یا اس کے علاوہ، تو اس صورت میں  ان کے  لیے اپنی جائز ضرورت کے لیے آفس کا  پرنٹر  معروف طریقے پر استعمال کرنا جائز ہوگا۔

اور اگر  انتظامیہ کی  طرف سے صراحتاً اس کی ممانعت ہو کہ پرنٹر کو  صرف آفس کی ضرورت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو  پھر ذاتی ضرورت کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

باقی اگر  آفس میں کلی طور پر اپنے مذکورہ آفیسرز کے ماتحت ہیں   تو ان کے کہنے پر اگر آپ ان کو  پرنٹ نکال کر  دیں تو اس کا گناہ آپ پر نہیں ہوگا، لیکن اگر  پرنٹر   وغیرہ    مجاز  انتظامیہ کی جانب سے آپ کی ماتحتی میں ہوں اور آپ کو   اپنی یا کسی بھی ملازم کی ذاتی  ضرورت کے لیے  استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہو تو  پھر آپ کے لیے  کسی کی ذاتی ضرورت کے لیے  اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، آپ  ان آفیسرز کو انتظامیہ کی پابندی سے آگاہ کردیں اور اپنی مجبوری بتا کر معذرت کرلیں،  اگر وہ نہ مانے تو  مقتدر انتظامیہ تک بات پہنچادیں، البتہ بہر صورت  اس پرنٹ کی مد میں آپ  کے ذمہ پیسے جمع کرانا لازم نہیں ہوگا، لیکن جہاں ناجائز کام پر تعاون کیا ہوگا  (جیسے کہ مجاز انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ہونے کی صورت میں) اس کا گناہ ملے گا، اس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہوگا۔

’’شرح المجلۃ‘‘ میں ہے:

"لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا‘‘.

(شرح المجلة، ج:۱، ص:۶۱، مادة: ۹۶، دار الکتب العلمیة، بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں