بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آفس میں ٹائی لگانا لازم ہو تو کیا حکم ہے؟ / ریشم کی ٹائی کا استعمال


سوال

آفس میں ٹائی لگاکر آنا لازمی قرار ہے، اور ٹائی اکثر خالص ریشم کی بنی ہوتی ہے تو کیا خالص ریشم کی ٹائی لگانا جائز ہے؟

جواب

واضح ہے کہ ٹائی کا استعمال، صلحاء، شرفاء کے لبا س کا حصہ نہیں، بلکہ فساق و فجار یا ان سے مرعوب لوگوں کے لباس کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے اور جو لبا س فساق و فجار کا شعار ہو یا اس میں فساق و فجار سے مشابہت نظر آتی ہو اس کو استعمال کرنا مکروہ ہے، کئی آحادیثِ نبویہ سے ثابت ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے، اور جو لباس دشمنانِ خدا سے مشابہت کا سبب بنے ایسے لباس کو ممنوع قرار دیا ہے۔

         جیساکہ حدیثِ مبارک میں ہے:

"إن فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس."

(سنن ترمذی،1/441، باب العمائم علی القلانس،ط: رحمانیه)

ترجمہ: ہمارے  اور مشرکین کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم عمامہ ٹوپیوں پر باندھتے ہیں۔

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: .... من تشبه بقوم فهو منهم."

(المسند الجامع، (الجھاد)، 10/716 ،رقم الحدیث؛8127،  دار الجیل، بیروت)

ترجمہ : حضورﷺ کا ارشاد ہے؛  جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی  تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:  

"إن هذه من ثیاب الکفار فلاتلبسها".

(مسلم، 3/1648، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،ط؛ داراحیاء التراث)

یعنی یہ کافروں کے(جیسے)  کپڑے ہیں، پس ان کو نہ پہننا۔

لہذا ٹائی  اگرچہ اب نصاری کا خاص شعار نہیں رہا، لیکن اب بھی یہ کفار اور فساق کے لباس کا حصہ ہے اور یہ صلحاء اور علماء  کا  لباس  نہیں ہے، اس لیے  ٹائی کا استعمال کراہت سے خالی نہیں، اس کو پہننے سے اجتناب ضروری ہے۔

آفس انتظامیہ  کو چاہیے کہ وہ اس پابندی کو ختم کردیں۔

باقی اگر ٹائی واقعۃً  خالص ریشم کی ہو تو اس کا استعمال  مردوں کے لیے حرام ہے، اگر ایسی خالص ریشم کی ٹائی کی پابندی ہو تو اس کا پہننا جائز نہیں ہوگا، اور اس میں آفس انتظامیہ کی بات ماننا بھی جائز نہیں ہوگا، بلکہ اس صورت میں کسی ایسی جگہ ملازمت کی کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں حرام کاموں کا ارتکاب لازم نہ آتا ہو۔ البتہ اگر  خالص ریشم نہ ہو، بلکہ مصنوعی ریشم ہو، یا  ایسا کپڑا جس کا تانا ریشم کا ہو اور بانا ریشم کا نہ ہو تو اس  کا استعمال مردوں کے لیے حرام نہیں ہے۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 130):

"(وأما) .الذي ثبت حرمته في حق الرجال دون النساء فثلاثة أنواع منها لبس الحرير المصمت من الديباج والقز لما روي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج وبإحدى يديه حرير وبالأخرى ذهب، فقال: هذان حرامان على ذكور أمتي حل لإناثها». وروي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى سيدنا عمر - رضي الله تعالى عنه - حلة فقال: يا رسول الله! كسوتني حلة وقد قلت في حلة عطارد إنما يلبسه من لا خلاق له في الآخرة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لم أكسكها لتلبسها، وفي رواية: إنما أعطيتك لتكسو بعض نسائك»".

الاختيار لتعليل المختار:

’’لا بأس بلبس ماسداه إبريسم و لحمته قطن أو خز‘‘. (ص: ٤٩)

تنویر الأبصار مع الدر المختار:

’’و يحل ( لبس ما سداه ابريسم و لحمته غيره) ككتان و قطن و خز؛ لأن الثوب إنما يصير ثوباً بالنسج، و النسج باللحمة، فكانت هي المعتبرة دون السدي‘‘.

و في الرد: ’’( قوله: و لحمته غيره) سواء كان مغلوباً أو غالباً أو مساوياً للحرير، و قيل: لا بأس إلا إذا غلبت اللحمة علي الحرير، و الصحيح الأول‘‘.

( شامي، كتاب الحظر و الإياحة، ٦/ ٣٥٦، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں