بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دفتر میں کام نہ ہونے کی صورت میں ملازم کا چھٹی کرنا


سوال

اگر دفتر میں کام نہ ہو اور پورا یقین ہو کہ اگر میں چھٹی کر لوں تو کوئی مسئلہ درپیش نہیں آئے گا تو کیا چھٹی کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے؛  کیوں کہ وہ وقت  اور عمل (کام )کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کےمقررہ وقت پر دفتر یعنی جائے ملازمت  میں حاضر رہنے سے ہی  تنخواہ   کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازم  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہتا  تو وہ  اس غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کامستحق نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر دفتر میں کام نہ ہو اور ملازم چھٹی کرنا چاہے تو اس کے لیے افسرانِ بالا کی اجازت کے بغیر چھٹی کرنا جائز نہیں، اگر چھٹی کرے گا تو جتنے گھنٹوں یا جتنے دنوں کی چھٹی کی ہے اتنے اوقات  کی  تنخواہ لینا اس کے لیے درست نہیں ہو گا، تاہم اگر مجاز با اختیار افسران سے چھٹی لے اور وہ بخوشی چھٹی دیں تو پھر چھٹی کرنے  کی اجازت ہو گی اور تنخواہ بھی حلال ہو گی۔اسی طرح اگر ادارہ کی طرف سے ملازم استحقاقی چھٹی کا حقدار ہوتو تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا حقدار ہوگا۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، جلد:9،صفحہ:140، طبع: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، جلد:4، صفحہ:423، طبع:ماجدیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505101339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں