بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی نماز جنازہ پڑھانے کا حق/ جنازہ کے بعد میت کو گھر میں رکھنا


سوال

عورت کے مرنے کے بعد جنازہ پڑھوانے کا حق شوہر کو ہے یا عورت کے باپ کو؟ کیا نمازِ جنازہ ادا ہونے کے بعد میت کچھ دیر کے لیے دوبارہ گھر میں رکھی جا سکتی ہے؟

جواب

1- واضح رہے کہ نمازِ  جنازہ کی امامت کے  لیے سب سے مقدم مسلمان حاکمِ وقت ہے اگر موجود ہو، یا اس کا نائب، پھر قاضی، پھر امامِ مسجدِ محلہ اورپھر میت  کا ولی۔ عام حالات میں محلہ کا امام  ولی سے مقدم ہے، البتہ اگراولیائے میت جنہیں  حقِ ولایت حاصل ہے، ان میں سے کوئی اس امام سے ا فضل ہو تو  وہ  نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار ہوگا۔ نیز  محلہ کے امام کا ولی پر حقِ امامت میں مقدم ہونا استحباباً ہے، یعنی اگر باوجود امامِ محلہ  کے ولی نماز پڑھادے تو یہ بھی درست ہے۔

اور عورت کا ولی اس کا باپ، بیٹا وغیرہ ہیں، شوہر   کو بیوی پر ولایت نہیں ہے؛ اس لیے کہ موت کے بعد اس کا تعلق ختم ہوگیا ہے، لہذا  صورتِ مسئولہ میں عورت کے انتقال کے بعد اس کی نمازِ جنازہ  پڑھانے کا حق  محلہ کے امام کو ہے، اگر محلہ کے امام صاحب موجود نہ ہوں تو  عورت کے باپ کو حق ہے کہ  وہ خود نمازِ جنازہ پڑھائے یا کسی اور سے پڑھوائے، شوہر کو نمازہ جنازہ پڑھوانے کا حق نہیں ہے۔ البتہ عورت کے اولیاء کی اجازت و رضامندی سے شوہر بیوی کی تدفین کے انتظامات اور نمازِ جنازہ کی ادائیگی وغیرہ معاملات کی ذمہ داری ادا کرسکتاہے، اور جنازہ بھی پڑھا سکتاہے۔ 

2-  نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم  حدیثِ مبارک میں وارد ہے، لہٰذا نمازِ جنازہ کے بعد بغیر شدید  عذر کے  تدفین میں تاخیر کرنا (مثلاً گھر میں رکھنا ) مکروہ اور خلافِ سنت ہے۔

وفي الفتاوى الهندية :

"أولى الناس بالصلاة عليه السلطان إن حضر فإن لم يحضر فالقاضي ثم إمام الحي ثم الوالي، هكذا في أكثر المتون. ذكر الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن الإمام الأعظم و هو الخليفة أولى إن حضر فإن لم يحضر فإمام المصر فإن لم يحضر فالقاضي فإن لم يحضر فصاحب الشرط فإن لم يحضر فإمام الحي فإن لم يحضر فالأقرب من ذوي قرابته وبهذه الرواية أخذ كثير من مشايخنا - رحمهم الله - كذا في الكفاية والنهاية ومعراج الدراية والعناية.والأولياء على ترتيب العصبات الأقرب فالأقرب إلا الأب فإنه يقدم على الابن، كذا في خزانة المفتين. قيل: هذا قول محمد - رحمه الله تعالى - وعندهما الابن أولى، والصحيح أنه قول الكل، كذا في التبيين، وهكذا في الغياثية وفتح القدير. ولا حق للنساء في الصلاة على الميت ولا للصغار وللأقرب أن يقدم على الأبعد من شاء ... ولا ولاية للزوج عندنا لانقطاع الوصلة بالموت، كذا في الجامع الصغير لقاضي خان، فإن لم يكن للميت ولي فالزوج أولى ثم الجيران أولى من الأجنبي، كذا في التبيين." (1/ 163ط:دار الفكر)

وفي الشامية:

"(قوله: ويسرع في جهازه)؛ لما رواه أبو داود «عنه صلى الله عليه وسلم لما عاد طلحة بن البراء وانصرف، قال: ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه، وعجلوا به؛ فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله». " (2/ 193ط:سعيد)

ترجمہ: " میت کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کی جائے، اس حدیث کی بنا پر جوا بو داوٗد نے روایت کی ہے کہ جب آں حضور ﷺ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ کی عیادت کر کے واپس لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ ان میں  موت سرایت کر چکی ہے، جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کر نا؛ تاکہ میں  ان کی نماز پڑھاؤں  اور ان کی تجہیز و تکفین میں  جلدی کرو، اس لیے کہ مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں  ہے کہ اس کو اس کے گھر والوں  کے درمیان روکا جائے"۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں