بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نقصان دہ شہد کی مکھیوں کو مارنے کا حکم


سوال

شہد  کی مکھیاں اگر نقصان پہنچا رہی ہوں تو کیا ان کو مارنا شرعاً جائز ہے ؟ ان کو بھگانے کی ساری تدبیریں کر چکے ہیں،  لیکن بے سود رہیں اور وہ مکھیاں انسانوں اور مویشیوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچا رہی ہیں، براہِ کرم شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں !

جواب

بصورتِ  مسئولہ اگر شہد کی مکھیاں انسانوں کے لیے   نافع ہونے کے  بجائے، نقصان کا سبب بن رہی ہیں، تو دیگر مؤذی جانوروں کی طرح ان مکھیوں کو مارنا  اور ان کے نقصان کو دفع کرنے کے اسباب اختیار کرنا جائز ہے، تاہم اوّلاً ان مکھیوں کو مارے بغیر کسی نہ کسی طرح بگھانے کی کوشش کی جائے، اگر یہ صورت ممکن نہ ہو تو ان کو  مارنے کی کوئی ایسی صورت اختیار کی جائے  جس سے ان مکھیوں کی جان جلدی نکل جائے اور  تکلیف بھی نہ پہنچے، کیوں آپﷺ نے جانوروں کو تڑپاکر اور ترسا کر مارنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح  دیگر تدابیر ممکن ہونے کی صورت میں مکھیوں کے  چھتہ کو آگ لگاکر مکھیوں کو ختم کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ  آپﷺ نے جانوروں کو جلانے سے منع فرمایا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"حضرت عبداللہ  بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضاءِ  حاجت کے لیے تشریف لے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا زمین پر گر کر پر بچھانے لگی، اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اس کا بچہ پکڑ کر کس نے اس کو بےقرار کیا ؟ اس کا بچہ اس کو  دے دو۔  اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چیونٹیوں کا ایک سوراخ دیکھا جس کو ہم نے جلادیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ یہ کس نے جلایا ؟ ہم نے کہا:  ہم نے جلایا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:  کسی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔ "

(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، باب کرہیۃ احراق العدوّ، رقم الحدیث:2675، ج:3، ص:55، ط:المکتبۃ المصریۃ)

اکمال المعلم شرح صحیح مسلم میں ہے:

"عن نافع  قال عبد الله  سمعت النبيصلى الله عليه وسلم يقول: "خمس من الدواب  لا جناح علي من قتلهن في قتلهن: الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور

"وقيل: بل المراد بتعيين هذه الخمسة التنبيه على ما شابهها في الأذى، وقاسوا سائر السباع على الكلب العقور، وسائر ما يتصدى للافتراس من السباع، وعلى الحدأة والغراب ما في معناهما، وإنما خص لقربهما من الناس، ولو وجد ذلك من الرخم والنسور لكانت مثلها، وكذلك نبه بالفأرة على ما ضرره مثلها وأشذ منها كالوزغ، وكذلك نبه بالعقرب على الزنبور، وبالحية والأفعى على أشباهها من ذوات السموم والمهلكات،

(كتاب الحج،باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:4، ص:108، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی ہے:

"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحا) ولا يضر بها لأنه لا يفيد، ولا يحرقها وفي المبتغى يكره إحراق جراد وقمل وعقرب.(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله: ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله: يكره إحراق جراد) أي تحريمًا ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية."

(مسائل شتی، ج:6، ص:752، ط:ایچ ایم سعید)

تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی میں ہے:

"حدثنا محمدُ بنُ المُثَنّى حدثنا عبدُ الرحمنِ بنُ مَهْدِي عن سُفْيَانَ عن الأعْمَشِ عن أبي يَحْيَى عن مُجَاهِدٍ: "أنّ النبيّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عن التّحْرِيشِ بَيْنَ البَهَائِمِ
قوله: (عن التحريش بين البهائم) هو الإغراء وتهييج بعضها على بعض كما يفعل بين الجمال والكباش والديوك وغيرها. ووجه النهي أنه إيلام للحيوانات."

(باب مَا جَاءَ في كَرَاهيَةِ التحريش بين البهائِم، والضرب والوسم في الوجه، ج:9، ص:328، ط:شبكة مشكوة الاسلاميه) 

فقط  والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207200310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں