بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نسوار کے پیسوں سے مسجد تعمیر کرنا


سوال

نسوار کے پیسوں سے مسجد تعمیر کرناچاہتا ہوں ،تو کیا ان پیسوں سے مسجد کی تعمیر کرانا جائز ہے ؟

جواب

 بصورتِ مسئولہ    تمباکو اور نسوار کا  کاروبار  ( یعنی خرید وفروخت)  شرعاً جائز ہے، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی  حلال ہے تو اُس پیسہ سے مسجد تعمیرکرانا بھی جائزہے۔

درالمختار  میں ہے:

"والحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع".

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:69، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول...

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه..

(قوله ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه".

(کتاب الاشربة، ج:6، ص:460، ط:سعید)

درالمختار میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون".

(کتاب الاشربة ج:6، ص:454، ط:دارالفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وسئل بعض الفقهاء عن أكل الطين البخاري ونحوه قال: لا بأس بذلك ما لم يضرّ، وكراهية أكله لا للحرمة بل لتهييج الداء".

(كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به، ج:5، ص:341، ط:رشيدية)

موسوعة الفقه الإسلامي میں ہے:

"القاعدة التاسعة: الأصل في الأشياء الإباحة.فكل ما خلق الله الأصل فيه الحل والإباحة ما لم يرد دليل يحرمه...وكل ما صنع الإنسان من الآلات والأجهزة فالأصل فيه الحل والإباحة ما لم يرد فيه دليل يحرمه...فالأصل الإباحة في كل شيء، والتحريم مستثنى".

(القاعدة التاسعة، ج:2، ص:293، ط:بيت الافكار الدولية)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے"۔

(کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص:552، ط:ادراہ صدائے دیوبند) 

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال ): میں نے ایک دکان فی الحال کھولی ہے جس میں متفرق اشیاء ہیں، ارادہ ہے کہ سگریٹ اور پینے کا تمباکو بھی رکھ لوں، یہ ناجائز تو نہیں ہوگا ؟

( جواب 163):  سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے او ر اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے"۔

(کتاب الحظر و الاباحۃ، ج:9، ص:148، ط:دارالاشاعت)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"افیون کی آمدنی سے جو زمین خریدکر اس میں کاشت کرتے ہیں اس کاشت کی آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا، ایسی آمدنی سے چندہ لینا بھی درست ہے، اور ان کے ہاں کھانا پینا بھی درست ہے"۔

(کتاب البیوع، باب البیع الباطل والفاسد والمکروہ، الفصل الثالث فی البیع المکروہ، ج:16، ص:123، ط:دار الاِشاعت)

وفیہ أیضاً:

"تمباکو کی کاشت بھی جائز ہے اور تجارت بھی جائز ہے، استعمال بھی جائز ہے، الا یہ کہ وہ نشہ آور ہو تب منع کیا جائے گا، مسجد میں جانے کے لیے منہ صاف کر کے اس کی  بدبو کو  زائل کر نے کا اہتمام کیا جائے"۔

(تمباکو کی کاشت، تجارت، اور استعمال، ج:18، ص:397، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں