مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس نصاب سے کم رقم ہو اور اس پر سال گزر گیا ہو تو کیا اس رقم پر زکات لازم ہوگی یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص کے پاس نصاب (ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت) سے کم رقم کے علاوہ کوئی سونا، چاندی یا مالِ تجارت اتنا نہ ہو جو اس رقم کے ساتھ مل کر نصاب زکوۃ کو پہنچ جائے تو ایسی صورت میں اس رقم کی وجہ سے زکوۃ لازم نہیں ہوگی اور اگر اس رقم کے ساتھ کچھ سونا ، چاندی یا مالِ تجارت اتنا ہو جو اس رقم کے ساتھ مل کر نصاب ِ زکوۃ کے برابر ہوتا ہو تو پھر مجموعہ پر زکوۃ لازم ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيف ما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا۔"
(كتاب الزكوة:2 /267،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد۔"
(كتاب الزكوة:2 /261،ط:سعید)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100395
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن