بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نوروز کا پس منظر اور اس کے منانے کی شرعی حیثیت


سوال

نوروز کا پس منظر کیا ہے؟ اور اس کا منانا اسلام کی نظر میں کیسا ہے؟

جواب

واضح رہےکہ نوروز کا معنیٰ ہے’’ نیا دن‘‘ جو کہ شمسی سال کا پہلا دن بھی ہے، اور عیسوی حساب سے 21 مارچ کو اس خطے کے ممالک خاص طور پر فارسی زبان بولنے والے ممالک یہ دن جشن کے طور پر مناتے ہیں،  یہ دن اہلِ مشرق کے لیے بہار کی آمد پر مسرت اور شادمنی کا اظہار ہے، ایرانی شمسی نظام یعنی زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے کو سال کاآغاز شمار کرتے ہیں، ایرانی اس آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں، اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں، بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں، جیسے: تاجکستان، افغانستان،آزربائیجان، ہندوستان اور پاکستان کے بعض لوگ اس کو جشن یا تہوار کے طور پر مناتے ہیں، اس جشن کا وجود حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سے  ملتا ہے۔

نوروز کی علامتیں آگ ، روشنی اور سورج ہیں، ان مظاہر قدرت کی عبادت اس خطہ ارض میں ”جس میں ایران، آذربائیجان اور موجودہ عراق و شام کے چند علاقے‘‘ شامل ہیں تین ہزار سال قبل مسیح بھی کی جاتی تھی، زرتشت (آگ کو پوجنے والوں ) کے بقول ہزاروں برسوں سے جاری یہ جشن اور تہوار موسم سرما کے خاتمہ اور بہار کے موسم کی نوید لے کر آتا ہے، اسی بناء پر زرتشت لوگ اس دن  تہوار اور اپنے لیے عید کے طور پر مناتے ہیں، اور مختلف ممالک یہ تہوار کئی کئی روز تک جاری رہتاہے۔

’’نوروز‘‘ یا ’’نیروز‘‘ ایرانی شمسی سال کا پہلادن جو 21مارچ (سنِ عیسوی) کو ہوتاہے، ’’عیدالنوروز‘‘ یا ’’النیروز‘‘ اہلِ فارس کا سب سے بڑا تہوار، نوروز

(القاموس الوحید، مادۃ: ن، و، ر، ص: ۱۷۲۴، ط:ادارۃ اسلامیات)

واضح رہے کہ شریعت میں مسلمانوں کے لیے دو عیدیں ہیں ،’’عیدالفطر‘‘ ، ’’عید الاضحیٰ‘‘، جب کہ”نوروز“  غیروں کا مذہبی تہوار ہے، کسی مسلمان کے لیے اس کی تعظیم کرنا یا اسے عید سمجھنا یا اس دن کےلیے الگ سے کوئی انتظامات وغیر ہ کرنا قطعًا جائز نہیں ہے، سنن أبی داؤد میں ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اہلِ مدینہ کے دو تہوار تھے، جس میں وہ کھیلا کرتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ دو تہوار اور دن کیسےہیں؟‘‘ وہ کہنے لگےکہ: ’’ہم دورِ جاہلیت میں ان دودنوں میں کھیلا کرتے تھے‘‘، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے تمہیں اچھے اور بہتر دو دن دیے ہیں، وہ ’’عید الاضحیٰ ‘‘اور ’’عید الفطر‘‘ کے دن ہیں۔‘‘

سنن أبي داؤد میں ہے:

"عن أنس قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة و لهم يومان يلعبون فيهما فقال: ’’ما هذان اليومان؟‘‘ قالوا: كنا نلعب فيهما في الجاهلية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  قد أبدلكم الله بهما خيرًا منهما: يوم الأضحى ويوم الفطر."

(باب صلاۃ العیدین، رقم:1134، ج: 1،ص: 295، ط: المكتبة العصرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و الإعطاء باسم النیروز و المهرجان لایجوز، و قال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدی یوم النیروز إلی مسلم آخر و لم یرد به تعظیم ذلك الیوم و لكن جری علی ما اعتادہ بعض الناس لایكفر و لكن ینبغي له أن لایفعل ذلك الیوم خاصةً و یفعله قبله أو بعده كي لایكون تشبهًا بأولئك القوم."

(مسائل شتی، ج:6، ص:446، ط:رشيدية)

تاریخ ابنِ خلدون میں ہے:

"ولما ملك ابنه كيستاسب شغل بقتال الترك عامة أيامه ودفع لحروبهم ابنه أسفنديار فعظم عناؤه فيهم. وظهر في أيامه زرادشت الّذي يزعم المجوس نبوّته، وكان فيما زعم أهل الكتاب من أهل فلسطين خادما لبعض تلامذة أرميا النبي خالصة عنده، فخانه فيبعض أموره فدعا الله عليه فبرص ولحق بأذربيجان وشرّع بها دين المجوسية. وتوجّه إلى كيستاسب فعرض عليه دينه فأعجبه وحمل الناس على الدخول فيه، وقتل من امتنع ................... وقال علماء الفرس: إن زرادشت جاء بكتاب ادّعاه وحيا، كتب في اثني عشر ألف بعده نقشا بالذهب .............. وجدّد لهم زرادشت بيوت النيران التي كان منوشهر أخمدها، ورتب لهم عيدين: النيروز في الاعتدال الربيعيّ والمهرجان في الاعتدال الخريفي، وأمثال ذلك من نواميسهم."

(الطبقة الثانية من الفرس وهم الكينية وذكر ملوكهم وأيامهم إلى حين انقراضهم، ج:2، ص:190، ط:دار الفكر، بيروت)

اللامع العزيزي شرح ديوان المتنبيمیں ہے:

"النوروز: من أعياد فارس، ‌وهو ‌يوم يرفعون فيه آلات الشتاء من بسط وما يجري مجراه ويستعملون آلات الصيف، وهم يصنعون ذلك إلى اليوم."

(حرف الدال، ومن التي أولها، ص:441، ط:مركز الملك فيصل للبحوث والدراسات الإسلامية)

القسم العربي من موقع (الإسلام، سؤال وجواب)میں ہے:

"كم عيد في الإسلام؟

يلحظ المسلم كثرة الأعياد عند المسلمين في هذه الأزمنة، مثل " عيد الشجرة "، و " عيد العمال " و " عيد الجلوس " و " عيد الميلاد " …الخ وهكذا في قائمة طويلة، وكل هذا من اتباع اليهود والنصارى والمشركين، ولا أصل لهذا في الدين، وليس في الإسلام إلا عيد الأضحى وعيد الفطر."

(الكتب والمقالات، عيد الأم! نبذة تاريخية، وحكمه عند أهل العلم، ج:13، ص:9)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں