بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم سے دوستی یا دلی محبت رکھنا


سوال

غیر مسلموں سے دوستی یا دلی محبت جائز ہے یا نہیں؟ یا اگر کوئی اس نیت سے کہ وہ اس کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان  ہوجائے گا دوستی کرے تو کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حُسنِ  اخلاق و نیک برتاؤ  اور ظاہری خوش خُلقی سے پیش آنا درست ہے،  اور اسلامی اخلاق سے متاثر کرکے غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے اسی کی اجازت ہے۔ 

جہاں تک قلبی تعلق اور دلی  دوستی  کی بات ہے تو یہ کسی غیر مسلم کے  لیے رکھنا جائز نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾ [آل عمران:28]

ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ 

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

 کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: موالات یعنی دوستی۔ مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساۃ:  یعنی احسان و نفع رسانی۔

موالات تو کسی حال میں جائز نہیں۔ اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے:  ایک دفعِ ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔ (بیان القرآن)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنکس پر فتاویٰ دیکھیے:

اہل بدعت رشتہ داروں سے تعلقات کا حکم

جس شخص کے بارے میں شک ہوکہ شرک میں مبتلا ہے، اس کی اقتدا میں نماز اور اس سے لین دین کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں