بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیدائش کے تئیس (23) سال بعد کان میں اذان دینے سے سنت ادا ہونے کا حکم


سوال

تئیس  (23)   سال گزر جانے کے بعد بھی بچے کے کان میں اذان دینے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اور سنت ادا ہوگی یا نہیں؟ اگر کئی سال بعد بچے کے کان میں اذان دی جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب

حدیث شریف میں نومولود بچے کے کان میں اذان دینے کا ذکر ہے؛ تاکہ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا کلمہ جو بچے کے کان میں پڑے وہ اللہ کا نام ہو، اور اذان و اقامت کی تخصیص اس لیے ہے کہ  بچے کے دل و دماغ میں نماز کی اہمیت جاگزیں ہو، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے،اور حدیث میں ہے کہ شیطان ولادت کے وقت بچے کو ستاتا ہے، جس سے بچہ چلاتا ہے، پس ولادت کے فوراً بعد بچے کے کان میں اذان دینا اس لیے بھی ہے، تاکہ شیطان بھاگ جائے اور بچہ کو  پریشان نہ کرسکے، اور تئیس سال بعد کوئی بھی شخص نومولود نہیں رہتا، لہذا اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد   نومولود کے کان میں اذان دینے سے اذان کی سنت ادا  نہ ہوگی۔ البتہ  جو شخص تئیس سال کا ہے، لا محالہ اس نے پیدائش کے بعد  سے اب تک مساجد سے بلند ہونے والی اذان کی آواز بے شمار مرتبہ ضرور سنی ہوگی، اس لیے اس  کے کان میں اذان کی آواز جاچکی ہے، اب اس عمر میں کان میں اذان دینے کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا بچہ پیدا ہوجائے اور وہ اس کے دائیں کا ن میں اذان دے دے، اور بائیں کان میں اقامت دے دے، تو شیطان اس بچے کو نقصان نہیں پہنچائےگا۔ "

(الجامع الصغیر فی احادیث البشیر والنذیر ، باب حرف المیم، رقم الحدیث:9085، ج:2، ص:352، ط:دارالکتب العلمیۃ)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي رافع -رضي الله عنه- قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.

 (بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»". كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: "{وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]". قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله صلى الله عليه وسلم:" «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين»". وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اهـ. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان (رواه الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح)".

(كتاب الصيد والذبائح، باب العقيقة، ج:7،  ص:2691، ط:دارالفكر) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144206200384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں