بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نومولود بچی کے کان میں اذان


سوال

کیا بچی کے کان میں بھی اذان دی جاتی ہے؟

جواب

نومولود کے کان میں اذان دینا سنت ہے، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔

بچہ اور بچی اس حکم میں یکساں ہیں ۔ یعنی دونوں کے لیے حکم یہ ہے کہ دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جائے۔

شرح السنۃ میں ہے:

"روي أن عمر بن عبد العزيز كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي". (11/273)

ترجمہ: "حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب بچہ پیدا ہوتا تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن حسين قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان."

ترجمه:  نبي كريم صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جس كا بچه پيدا هوا اور اس نے اس كے دائيں كان ميں اذان دي اور بائيں  کان میں اقامت دی تو اس بچے کو ام الصبیان(بچوں کو لاحق ہونے والا سوکھے کامرض) نامی بیماری لاحق نہیں ہوگی۔"

(أخرجه ابو يعلى في مسند حسين بن علي رضي الله عنهما (12/ 150) برقم:6780،ط. دار المأمون للتراث - دمشق، الطبعة الأولى ، 1404 - 1984)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في إذن المولود وفي شرح السنة روي أن عمر بن عبد العزيز رضي الله عنه كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي."

(كتاب الصيد والذبائح، باب العقيقة (7/ 2691)،ط.دار الفكر، بيروت - لبنان، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2002م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں