بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری پیشہ لوگوں اور کالج کے طلبہ کی سہولت کی خاطر مسجد میں دو جمعہ قائم کرنے کا حکم


سوال

یہاں انگلینڈ میں نماز جمعہ کے وقت بہت سے لوگ کام پر ہوتے ہیں اور اگرچہ بعضوں کو چھٹی مل جاتی ہے نماز جمعہ کے  لیے، بعضوں کو نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض کالج وغیرہ کے طلبہ کو اس وقت جمعہ میں حاضر ہونا دشوار ہے کیوں کہ کلاسیں ہورہی ہوتی  ہیں۔ عمومًا یہ حضرات پھر ظہر ہی پڑھ لیتے ہیں؛ کیوں کہ ان کو جمعہ نہیں مل سکتا۔ اب ایک مسجد میں یہ سہولت پیدا کی گئی ہے کہ باقاعدہ دوسری نماز جمعہ   اسی مسجد میں قائم کی گئی ہے جو پہلے جمعہ کے تقریبا دو گھنٹے  بعد ہوتی ہے۔ کیا دوسری جمعہ کی نماز درست ہے؟ اور کیا اگر کسی کو مذکورہ مجبوری نہ بھی ہو تو کیا اگر وہ شخص پہلی جماعت کے بجائے دوسری میں حاضر ہوجائے تو اس کے  لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  ایسی مسجد  جس میں پنج وقتہ نماز  منظم طریقہ پر جماعت کے ساتھ  ہوتی ہے، اس میں  پہلی جماعت ہوجانے کے بعد دوسری جماعت کرنا مکروہ ہے، اگر دوسری جماعت اذان و اقامت کے اعادہ کے ساتھ ہو تو  مکروہ تحریمی ہے اور اگر اذان و اقامت کا اعادہ نہ ہو اور محراب سے بھی عدول کر لیا جائے  تو مکروہ تنزیہی  ہے  البتہ غیر مسلم ممالک میں اگر مسجد چھوٹی ہو اور نمازیوں کے لیے کافی نہ ہو اورمسجد  کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ جمعہ کی  نماز سے رہ جاتے ہیں  اور باہر صف بچھا کر  نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور  مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ جمعہ  قائم کرنا ممنوع ہو  تو پھر مجبوراً ایک ہی مسجد میں ایک سے زائد مرتبہ جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی۔

لہذاصورتِ  مسئولہ میں ذکر کردہ اعذار (یعنی نوکری پیشہ لوگوں کو چھٹی نہ ملنا یا طلبہ کا کالج کی پڑھائی میں مصروف ہونا) کی بناء پر  مذکورہ  مسجد میں ایک سے زائد جمعہ کی نماز ادا کرنا مکروہ ہوگا۔نوکری پیشہ لوگوں  اور طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنا دینی فریضہ پورا کرتے ہوئے جمعہ کی اذان پر اپنے آپ کو دیگر مصروفیات سے فارغ کرلیں اور اپنے متعلقہ اداروں کے مالکان اور انتظامیہ سے چھٹی کی درخواست کریں  اور مسجد کی نماز میں شمولیت کو یقینی بنائیں۔اگر کسی صورت نماز کے وقت میں چھٹی ممکن نہیں ہے تو پھر مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ ایسے لوگوں  کے لیے جمعہ کا انتظام کیا جائے، مذکورہ اعذار کی بنا  پر مسجد میں دوبارہ جمعہ کی نماز  پڑھنا مکروہ ہوگا۔

"مصنف ابن أبي شيبة"میں ہے:

"حدثنا وكيع، عن أبي هلال، عن كثير، عن الحسن، قال: «كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، إذا دخلوا المسجد وقد صلي فيه صلوا فرادى.

 حدثنا وكيع، عن أفلح، قال: دخلنا مع القاسم المسجد وقد صلي فيه، قال: «فصلى القاسم وحده."

(‌‌من قال: يصلون فرادى، ولا يجمعون،ج نمبر۲ص نمبر۱۱۳،مکتبہ الرشد)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله ويكره) أي تحريما لقول الكافي لا يجوز والمجمع لا يباح وشرح الجامع الصغير إنه بدعة كما في رسالة السندي ......ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان؛ ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى فيه أهله يصلون وحدانا وهو ظاهر الرواية اهـ."

(باب الامامۃ ج نمبر ص۱نمبر۵۵۲،ایچ ایم سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"جماعت ثانیہ اگر جماعت اولی کی ہیئت پر ہو اور ایسی مسجد میں ہو کہ جس میں جماعت معینہ ہوتی ہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر بہ تبدیل ہیئت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے اور لفظ لا باس یا لفظ جواز مکروہ تنزیہی کے منافی نہیں۔"

(کتاب الصلاۃ ج نمبر  ۳ ص نمبر ۱۳۴،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں