بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری میں وقت سے پہلے چھٹی کرنا


سوال

 میں پوسٹ آفس میں نوکری کرتا ہوں وہاں ہر ایک ملازم کے لیے الگ الگ کام ہے اور آفس ٹائم 9 سے 5 بجے تک کا ہے اور میں اپنا کام مکمل کرکے ٹائم سے پہلے چلے جاتا ہوں. اگر نہیں جاؤں تو ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ بالکل فارغ بیٹھنا پڑھتا ہے اس کی وجہ سے آفس والے ان لوگوں کا کام دیتے ہیں جو جلدی چلے جاتے ہیں. تو آیا شریعت کی رو سے میرا اپنا پورا کام مکمل کرکے چلے جانا صحیح ہے یا نہیں. اگر نہیں ہے تو اس کی کیا صورت نکلے گی؟..

جواب

 واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس   غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   لہذا اگر سرکار کی طرف سے مذکورہ ملازمت کا یومیہ دورانیہ ۸ گھنٹے  طے ہے تو  اتنے گھنٹے  ڈیوٹی پر حاضر رہنا ضروری ہے، اگرچہ کوئی کام نہ ہو، یا اس دوران کسی اور کا کام کرنا پڑے ، بہر حال مقرر اور طے شدہ وقت کی پابندی ضروری  ہے۔

شامي ميں ہے:

"‌الأجير (الخاص) ‌ويسمى ‌أجير ‌وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا۔"

(كتاب الاجاره ، مطلب الاجير الخاص ، ج: 6 ، ص: 69 ، سعيد)

فتح القدير میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، ج: 9 ص: 140 ط: دار الفکر)

مجلۃ الأ حکام میں ہے:

"(المادة 425) : الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة."

(الكتاب الثاني: في الإجارات، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية، ص: 82 ط: نورمحمد)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، ج: 4 ص: 423 ط: رشیدیہ)

تبيين الحقائق ميں ہے:

"الأجير الخاص ‌يستحق ‌الأجرة ‌بتسليم ‌نفسه ‌للعمل ‌عمل ‌أو ‌لم ‌يعمل ‌سمي أجيرا خاصا وأجير وحد؛ لأنه يختص به الواحد وهو المستأجر وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنعه من العمل مانع حسي كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل قال صاحب الهداية الأجر مقابل بالمنافع، ولهذا يبقى الأجر مستحقا، وإن نقض العمل قال صاحب النهاية نقض على البناء للمفعول۔"

( كتاب الاجاره ، باب ضمان الاجير ، ج: 5 ، ص: 137، مطبعہ الكبرى الاميريه )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں