بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری کے دوران ذاتی کام کرنا


سوال

میں سرکاری ملازم ہوں، یہاں ہمارے کچھ ساتھی دوران ڈیوٹی پرائیویٹ کام کرتے ہیں اور بجلی ،کمپیوٹر، کاغذ وغیرہ سرکار کا استعمال کرتے ہیں، کیا اُن کی یہ کمائی حلال ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حکومت کی اجازت کے بغیر آپ کے ساتھیوں کے لیے ڈیوٹی کے اوقات میں پرائیویٹ کرنا اور اس کام کے دوران بجلی کمپیوٹر اور کاغذ وغیرہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اور ان کی یہ کمائی حلال نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وليس ‌للخاص ‌أن ‌يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل...(قوله ‌وليس ‌للخاص ‌أن ‌يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة."

(كتاب الإجارة، مبحث الأجير الخاص، ج:6، ص:70 ط: سعيد)

مجمع الانہر میں ہے:

"(و) ثاني النوعين (الأجير ‌الخاص) ‌وهو (‌من ‌يعمل ‌لواحد) قيد صاحب الدرر بقوله: عملا مؤقتا بالتخصيص، وقال: فوائد القيود عرفت مما سبق (ويسمى أجير وحد) أيضا (ويستحق) الأجير الخاص (الأجر بتسليم نفسه) أي الأجر (مدته) أي العقد سواء عمل أو لم يعمل مع التمكن بالإجماع."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، فصل أحكام الأجير وأنواعه، ج:2، ص:390، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں