بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری کے حصول کے لیے غلط عمر لکھوانا


سوال

 میری عمر بچپن میں میرے والدین نے بالکل ٹھیک لکھی تھی۔ آدھی زندگی میری گاؤں میں گزری اور میں تب سے جاب کی کوشش کر رہی ہوں ۔ جب میری شادی ہوئی مجھے نوکری کی ضرورت اور زیادہ پڑی لیکن میں اب اوور ایج ہوں نوکری کے لیے، لہذا میں اب اپنی عمر مجبوری میں کم کروانا چاہتی ہوں   ،مجھے گناہ  ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے عورتوں کے گھر میں رہنے کو پسند فرمایا اور عورتوں کو اس بات کا حکم ہے کہ وہ حتی الامکان گھر میں رہنے کا اپنے آپ کو پابند کریں ۔ نیز شریعت نے ضرورت اور حاجت کے پیش نظر مکمل پردہ کے ساتھ عورتوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت بھی دی ہے لہذا صورت مسئولہ میں سائلہ کو اگر شدید مجبوری نہیں ہے اور شوہر  کماتا ہے اور اس کی کمائی پر  گزارا ہوسکتا ہے تو پھر سائلہ نوکری کی کوشش نہ کرے۔ نیز اگر شدید مجبوری ہے اور شوہر کماتا نہیں ہے یا اتنا کم کماتا ہے کہ اس کی کمائی پر کسی طرح گزارا ممکن نہیں ہے تو پھر نوکری مکمل پردے کےسا تھ ایسی نوکری کرسکتی ہے جس میں  مردوں سے  اختلاط نہ ہو  لیکن نوکری حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر غلط بتانا جائز نہیں ہوگا اور غلط بیانی کی صورت میں جھوٹ کا گناہ ہوگا۔

أحكام القرآن  میں ہے:

"وقوله تعالى وقرن في بيوتكن روى هشام عن محمد بن سيرين قال قيل لسودة بنت زمعة ألا تخرجين كما تخرج إخوتك قالت والله لقد حججت واعتمرت ثم أمرني الله أن أقر في بيتي فو الله لا أخرج فما خرجت حتى أخرجوا جنازتها وقيل إن معنى وقرن في بيوتكن كن أهل وقار وهدوء وسكينة يقال وقرفلان في منزله يقر وقورا إذا هدأ فيه واطمأن به وفيه الدلالة على أن النساء مأمورات بلزوم البيوت منهيات عن الخروج."

(سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۳۲ ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۲۹،دار احیاء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة."

(کتاب النکاح باب المہر ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۴۵،ا یچ ایم سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"یہاں انگلینڈ کا اصول یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کی عمر جب تک سولہ سال  کی نہ ہو اس وقت تک اسکول جانا فرض ہے، جب سولہ سال کی عمرہوجاتی ہے تو اسکول کی جانب سے کام ملتا ہے۔ اس  فیکٹری میں خالص عورتوں  ہی کا کام ہوتا ہے اور اس میں عورتیں ہی کام کرتی ہیں مرد کا نام بھی نہیں ۔ یہ فیکٹری سپلائے کی ہے۔ میں نے دو عالم سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ جس فیکٹری میں عورتیں ہی کام کرتی ہوں اس میں کام پر لڑکی کو بھیجنے میں کوئی حرج تو نہیں جس ڈیپارٹ منٹ میں عورتیں کام کرتی ہیں وہاں کی سپر وائزر عورت ہی ہوتی ہے۔"

جواب: وقت حاجت شرعی حدود  کی رعایت رکھتے ہوئے اجازت ہے۔ فقط واللہ اعلم

(کتاب الحظر و الاباحۃ باب الحجاب ج نمبر ۱۹ ص نمبر۱۸۳، جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں