بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری کرنے والی مالدار بیٹی کی شادی کے خرچہ کا حکم


سوال

ایک لڑکی جس نے نوکری سے کچھ پیسے جمع کیے ہوں اور اسکے والد کی آمدنی بہت اچھی ہو، جو اسکی شادی کے اخراجات احسن طریقے سے پورےکرسکتا ہو، وہ اپنی اس بیٹی سے یہ کہے کہ اپنے شادی کے اخراجات خود پورے کرو  ان پیسوں سے جو نوکری سے جمع کئے ہیں، تو کیا یہ بات درست ہو گی؟ نوکری کرنے والی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات باپ کے ذمہ نہیں ہو نگے جبکہ وہ احسن طریقےسے اخراجات اٹھاسکتا ہو ؟

جواب

واضح رہے شریعتِ مطہرہ نے عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے سرپرست پر رکھی ہے ،یعنی اگر وہ بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ اس کے اخراجات اٹھانا لازم ہے، اور اگر وہ ماں ہے تو   اولاد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ دار ہے، اور اگر وہ بیوی ہے تو شوہر اس کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، اسی وجہ سے اسلام نے عورت پر کسب معاش کو لازم نہیں رکھا ہے  ، لیکن اگر کوئی عورت خود کسب معاش کی راہ اختیار کرکے نان نفقہ کے  معاملہ میں  خود کفیل بنے،پھر نان نفقہ اور شادی کے اخرجات کے حوالہ سے بقدر کفایت مال کی مالک بھی بن جائے ، تو اس کے شادی کے اخراجات  والد پر لازم نہیں  ہوتے ،لیکن   لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کروانا اور شادی کے ضروری اخراجات اٹھانا چونکہ  عرفاً والدین کے ذمہ ہوتے ہیں ، اس لیے والد کو چاہیے بقدر استطاعت بیٹی کی شادی کا خرچہ ادا کرے ۔اسی طرح اگر اور اولاد کی شادیوں میں والد نے خرچ کیا ہے تواس بیٹی کی شادی میں بھی والد کو خرچ کرنا چاہیے تاکہ اولاد کے ساتھ برابری کا معاملہ پایا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة."

( كتاب الطلاق ، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الرابع في نفقة الاولاد ، ج:1 ، ص:563 ، ط:دارالفكر )

مبسوط سرخسی میں ہے :

"والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء ‌عاجزات ‌عن ‌الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه."

( باب  نفقة ذوى الارحام ،ج:5 ، ص:223 ، ط:دارالمعرفة )

فتاوی شامی میں ہے :

"قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه."

( كتاب الطلاق ، باب النفقة ، مطلب الصغير و المكتسب نفقة كسبه لا على ابيه ، ج:3 ، ص:614 ، ط: ايچ ايم سعيد )

احکام الاحوال الشخصیۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ میں ہے :

"وأما البنت فإذا كانت فقيرة صغيرة وأبوها غني أو كسوب فنفقتها بأنواعها واجبة لها على أبيها، وكذلك إذا كبرت وهي فقيرة فنفقتها واجبة على أبيها، سواء كانت قادرة على الكسب أو عاجزة عنه، لكن إذا اكتسبت فعلا من وظيفة أو حرفة فلا تجب نفقتها على أبيها، بل تكون نفقتها فيما كسبته؛ لأنها استغنت به، إلا إذا كان ما كسبته لا يفي بحاجتها فعلى أبيها تكميل كفايتها."

( الحضانة والنفقات ، نفقه الاقارب ، ص: 141 ، ط: دارالكتب )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں