بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جُمادى الأولى 1446ھ 12 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری کے لیے غیر مسلم ممالک کو مسلم ممالک پر ترجیح دینے کا حکم


سوال

 میرا سوال  یہ ہے کہ بہتر روزگار اور نوکری کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک کو مسلم ملک پر ترجیح دینا جائز ہے؟ مثلا اچھی نوکری یا روزگار مجھے خلیجی ممالک میں مل سکتی ہے، لیکن میں برطانیہ، امریکہ وغیرہ کو ترجیح دوں، کیا میرے لیے یہ جائز ہے؟

جواب

جب آپ کو مسلم ممالک میں اچھا روزگار ملنے کی امید ہےتو غیر مسلم ممالک کو مسلم ممالک پر ترجیح دیناجائز نہیں ، حضورِ اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے کفار کے درمیان اقامت اختیار کرنے کوکفار کی مماثلت قرار دیا، جیساکہ  سنن ابی داؤد میں ہے:

’’قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم:’’ من جامع المشرك وسکن معه فإنه مثله.‘‘

"ترجمہ: جو شخص مشرک کی موافقت کرے ،اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کی مثل ہے۔"

(  کتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض المشرك، ۲؍۳۸۵۔ط: میر محمد کتب خانه)

اور اگر معیارِ زندگی بلند کرنے اور خوش حالی و عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے دار الکفر کو ترجیح دیتا ہے تو یہ کراہت سے خالی نہیں، بلکہ خود کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے؛کیوں کہ بے حیائی اور فحاشی  اور دیگر منکرات کی موجودگی  میں مسلمان کافروں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور دین سے دور نکل جاتاہے۔

ترمذی شریف میں ہے:

"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية إلى خثعم فاعتصم ناس بالسجود، فأسرع فيهم القتل، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم بنصف العقل وقال: «أنا بريء ‌من ‌كل ‌مسلم ‌يقيم ‌بين أظهر المشركين». قالوا: يا رسول الله، ولم؟ قال: «لا تراءى ناراهما."

"ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ارشاد فرمایا:میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں ،جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے،صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے سوال کیایا رسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا : اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں(تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ اسلام کی آگ ہے یا کفر کی آگ ہے)۔"

(کتاب السیر ،باب ماجاء فی مقام بین اظهر المشركين،ج:4، ص: 155، العلمية)

اور اگر  مسلمانوں پر بڑائی  اور فخر کے اظہار کے لیے،یا  دارالکفر  کی قومیت اور شہریت کو دارا لا سلام پر قومیت اور فوقیت دیتے ہوئے دار الکفر کو ترجیح دے تو یہ  کفار کے طرزِ زندگی میں ان جیسا بننے کے لیے ایسا کرنا ہے،  جو کہ شرعاً حرام ہے۔جیساکہ حدیث میں ہے:

"من تشبه بقوم فهو منهم‘‘. الحدیث."

"ترجمہ : جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرےوہ انہیں میں سے ہے۔"

( مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ۲/۳۷۵، ط: قدیمی کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں