بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہوٹل کے کمرے کرائے پر دینا


سوال

ایک شخص نے50,000 روپے  ماہانہ پر ایک گھر کرائے پر لیا،  اب وہ اُس میں مسافروں اور دیگر لوگوں کے لیے  ہوٹل کھولنا چاہتا ہے، اور ہوٹل میں ایسے نوجوان بچے بچیاں بھی رُکنے کے لیے آتے ہیں جو غلط کام بھی کرتے ہیں،    تو کیا اس کی کمائی دُرست ہوگی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر یقینی طور پر معلوم ہو یا غالب گمان ہو  کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں غیر شادی شدہ ہیں تو ان کو کمرے کرائے پر دینا جائز نہیں ہے، ان سے مناسب انداز میں  معذرت کرلینی چاہیے، اور اگر ان نوجوانوں کے بارے میں حتمی اور یقینی طور پر  معلوم نہ ہو کہ یہ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ، اور تحقیق کے باوجود یقین یا غالب گمان نہ ہوسکے تو  ان کو کمرے کرائے پر دینا جائز ہے، اس صورت میں اگر وہ غیر شادی شدہ نکلے تو اس کا گناہ ان نوجوانوں پر ہی ہوگا، ہوٹل  انتظامیہ گناہ گار نہیں ہوگی، ان کی آمدنی بھی حلال ہوگی۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا ‌استأجر ‌الذمي ‌من ‌المسلم ‌دارا يسكنها فلا بأس بذلك، وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير ولم يلحق المسلم في ذلك بأس لأن المسلم لا يؤاجرها لذلك إنما آجرها للسكنى. كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، ج:4، ص:450، ط:دار الفكر)

شرح السیر الکبیر میں ہے:

"ولا ينبغي لأحد من المسلمين أن يؤاجرهم بيتا لشيء من ذلك لما فيه من صورة الإعانة إلى ما يرجع إلى الاستخفاف بالمسلمين، فإن آجرهم فأظهروا شيئا من ذلك في تلك الدار منعهم صاحب البيت وغيره من ذلك، على سبيل النهي عن المنكر، وهو في ذلك كغيره، ولا يفسخ عقد الإجارة بهذا، بمنزلة ما لو أجر بيته من مسلم فكان يجمع الناس فيه على الشراب أو يبيع المسكر فيه فإنه يمنعه من ذلك على سبيل النهي عن المنكر ولا تفسخ الإجارة لأجله."

(باب ما لا يكون لأهل الحرب من إحداث الكنائس والبيع وبيع الخمور، ص:1527، ط: الشركة الشرقية)

العنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"قال: (ويجوز استئجار الدور والحوانيت للسكنى وإن لم يبين ما يعمل فيها)؛ لأن العمل المتعارف فيها السكنى فينصرف إليه وأنه لا يتفاوت فصح العقد (وله أن يعمل كل شيء) للإطلاق (إلا أنه لا يسكن حدادا ولا قصارا ولا طحانا؛ لأن فيه ضررا ظاهرا) ؛ لأنه يوهن البناء فيتقيد العقد بما وراءها دلالة.

قوله: (ويجوز استئجار الدور والحوانيت للسكنى إلخ) قيل صورة المسألة أن يقول: استأجرت هذه الدار شهرا بكذا ولم يبين ما يعمل فيه من السكنى وغيره فذلك جائز وينصرف إلى السكنى وإن لم يبين، لأن العمل المتعارف فيها هو السكنى وبه يسمى مسكنا. وفي القياس: لا يجوز لأن المقصود من الدور والحوانيت الانتفاع وهو متنوع، فوجب أن لا يجوز ما لم يبين شيئا من ذلك. ووجه الاستحسان أن المعروف كالمشروط نصا فينصرف إليه (قوله ولأنه لا يتفاوت) جواب عما عسى أن يقال سلمنا أن السكنى متعارف لكن قد تتفاوت السكان فلا بد من بيانه.

ووجهه أن السكنى لا تتفاوت، وما لا يتفاوت لا يشتمل على ما يفسد العقد فيصح (وله أن يعمل كل شيء) من السكنى والإسكان والوضوء والغسل وغسل الثياب وكسر الحطب للوقيد وغيرها مما هو من توابع السكنى (للإطلاق) أي لإطلاق العقد فإنه ليس بمقيد بشيء دون شيء (إلا أنه لا يسكن حدادا ولا قصارا ولا طحانا) بالماء أو الدابة دون اليد إن لم يوهن البناء، وفي الجملة كل ما لم يتضرر به البناء جاز أن يعمله فيه ويتقيد به."

(كتاب الإجارات، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:9، ص:81، ط: دار الفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’مسافر خانہ بنانا اور اس میں ٹھہرنے کا کرایہ لینا درست ہے۔ اس کوشش کے باوجود کہ وہاں برائی نہ ہونے پاوے، پھر بھی اگر آنے والے برائی کریں تو مسافر خانہ والوں پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا اور کرایہ کی آمدنی کو نا جائز نہیں کہا جائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ۔‘‘

(باب الاجارۃ الصحیحہ، ج:16، ص:569، ط:ادارۃ الفاروق، کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں