بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نوجوان عورت کے بیوہ ہونے کی صورت میں متفرق امور کے احکام


سوال

1: کسی شخص کا انتقال ہو جائے اور عورت ابھی جوان ہو، اگر لڑکی کے گھروالےاپنی بیٹی کو اپنے گھر لانا چاہتے ہوں توشرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

 2:دوسری بات یہ کہ لڑکی کے دو بچے ہیں(دونوں لڑکیاں ہیں) اور لڑکی امید سے بھی ہے، تو ان بچوں کی پرورش کا کس کو حق ہے؟

3: اگر لڑکی والے اپنی بیٹی کے ساتھ بچوں کو بھی اپنے گھرلاتے ہیں ،تو بچوں کو میراث میں سے کتنا حصہ ملے گا؟

4:اور لڑکی کو جو جہیز دیاگیاتھا اور زیورات دیے گئے تھے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں مرحوم شوہر کی وفات کے بعد بیوہ پر عدت اسی مکان میں گزارنا ضروری ہے جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ قیام پذیر تھی،لہذابیوہ کے گھر والوں کا  عدت کی مدت  مکمل ہونے سے قبل بلاعذرشوہر کے گھر سے منتقل کرکے اپنے گھر لانا شرعاً جائز نہیں ہے،البتہ عدت کے بعد بیوہ کو رہائش کے حوالے سے اختیار ہے،اگر وہ  چاہے تو اپنےوالدین کے گھر چلی جائے،اور وہیں رہائش اختیار کرلے،اس معاملے میں کسی قسم کی زور زبردستی نہیں کی جاسکتی ،اور اگر مرحوم شوہرنے ترکہ میں مکان چھوڑا تو اور بیوہ کا حصہ اس کی رہائش کے لیے کافی ہو یا سسرال والےبرضا و خوشی اپنے گھر میں بیوہ کے لیے رہائش کا بندوبست کردیں تووہ سسرال میں غیرمحارم( دیور جیٹھ وغیرہ) سےپردے کے اہتمام کے ساتھ رہائش اختیارکر سکتی ہے۔

2:صورتِ مسئولہ میں  9 سال کی عمر تک لڑکیاں اپنی  ماں کی پرورش میں رہیں گی،البتہ اگر وہ کسی ایسی جگہ شادی کرلے جو بچی کے لیے غیرمحرم ہو تو پرورش کا حق بچیوں کی نانی اوراس کے بعد دادی کی طرف منتقل ہوجائے گا، اور 9 سال کی عمر مکمل ہوجانے کے بعد یہ بچوں کی تربیت کا حق لڑکی کے داداکو   حاصل ہوگا،نیز بیوہ چوں کہ امید سے بھی ہے اس لیے لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں تو اس کی پرورش سے متعلق یہی مذکورہ حکم ہے،البتہ اگر لڑکا پیدا ہو تو حق پرورش سات سال تک ماں کو حاصل ہوگا، اس کے بعد نانی اور اس کے بعد دادی کے پاس رہے گا، سات سال کے بعد بچے کی تربیت کا حق  دادا کی طرف منتقل ہوجائے گا۔

3:مرحوم کی بیوہ اور بچیوں کو اس کے گھر والے اپنے ساتھ لے جائیں یا وہ وہیں سسرال میں اپنی بچیوں کے ہمراہ رہ رہی ہو، بہرصورت بیوہ اپنے مرحوم شوہر کے اور دونوں بچیاں اپنے مرحوم والد کی میراث کی حق دار ہیں۔ (ہر ایک وارث کے حصےکی تفصیل مرحوم کے تمام ورثاءبشمول والدین ،بھائی، بہن اور بیوہ کے وضع حمل سے پیدا ہونے والی بچے/بچی کی تفصیل بھیج کر معلوم کی جائے۔)

4:بیوہ کو جو زیورات شادی کے موقع پر میکے کی جانب سے ملے تھے، وہ سائلہ کی ملکیت ہیں، اس کے علاوہ جو زیور بیوہ کو اس کے سسرال والوں نے دیاتھا،اگر بطورِ تحفہ یا ہدیہ دیاہو یا بطورِ مالک دینے کی صراحت کی ہو تو وہ زیور بھی بیوہ کی ملکیت کہلائے گا، اور اگریہ زیور دیتے وقت اس بات کی صراحت کی ہو کہ صرف استعمال کے لیے ہیں، تو پھر و ہ زیور بیوہ کا نہیں کہلائے گا، لیکن اگر وہ زیور دیتے وقت کسی قسم کی کوئی صراحت نہ کی ہوتو پھر سسرال والوں کے عرف کے مطابق دلہن کو شادی کے موقع پر بطورِ ملک دینے کا رواج ہوتو وہ بیوہ کی ملکیت شمار ہوگا،اور اگر بطورِ عاریت دینے کا عرف ہوتو پھر زیور سسرال والوں کی ملکیت کہلائے گااور اگر بیوہ کے سسرال کے ہاں کسی قسم کا کوئی عرف رائج نہ ہو تو عرفِ عام کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیور گفٹ سمجھا جائے گااور لڑکی کی ملکیت ہوگا۔

باقی مذکورہ بیوہ اپنی شادی کے موقع پر  جو سامان بطورِ جہیز   اپنے والد کے گھر سے لائی تھی وہ بیوہ کی ملکیت ہے،اور جو سامان مرحوم شوہر نے لایاہے،وہ شوہر کی ملکیت کہلائے گا،اور بطورِ ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا تخرجان منه (إلا أن تخرج أو ينهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(كتاب الطلاق، باب العدة، 536/3،ط: ايچ ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أحق الناس ‌بحضانة ‌الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ...  وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."

( كتاب الطلاق ، الباب السادس عشر في الحضانة ، ج:1 ، ص:541 ، ط: دارالفكر )

وفيه ايضاّ :

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."

( كتاب الطلاق ، الباب السادس عشر في الحضانة ، ج:1 ، ص:542 ، ط: دارالفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب وهو القرابة، والسبب وهو الزوجية، والولاء وهو على ضربين: ولاء عتاقة وولاء موالاة."

(كتاب الفرائض، الباب الثاني، ج:6، ص:447، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها.قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ‌ليلة ‌العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا.

(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى)."

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:135 تا 158، ط:ايچ ايم سعيد)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها.

(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل ‌في ‌حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، ج:2، ص:482، ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں