بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نوحہ سننے کا حکم


سوال

نوحہ سننا حلال ہے یا حرام؟

جواب

دس محرّم  الحرام  کےدن واقعہ کربلا کا پیش آنا اور اس واقعہ میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خاندان سمیت شہید کردینا بہت بڑا المناک واقعہ ہے ، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اسلامی تاریخ شہداء کے خون سے رنگین ہے ، شریعتِ مطہرہ نے ہمیں غم منانے کے اصول اور قواعد بیان کردیئے ہیں ، بیوہ عورت کو چار ماہ دس دن تک غم (سوگ) منانا صرف جائز نہیں بلکہ واجب ہے اور دیگر اقارب کےانتقال کے بعد تین روز تک غم منانا اور اس کے اظہار کی اجازت دی گئی ہے ، باقی کسی حادثہ پر چودہ سو سال کے بعد بھی غم منانا اور نوحہ پڑھنا ماتم کرنا اور اس غم  و دکھ کو  ظاہر کرنا اسلام میں حرام  ہے، حدیث شریف میں نوحہ خوانی کرنے اور سننے والوں پر سخت وعیدیں آئی ہیں، جیسے کہ مندرجہ ذیل احادیث میں ہے:

"مشكاة المصابيح" میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم النائحة والمستمعة."

(کتاب الجنائز، باب دفن الميت، الفصل الثالث، رقم الحدیث:1732، ج:1، ص:543، ط:المکتب الإسلامي)

"ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی نوحہ خوانی کرنے والی پر اور اس کو سننے والی پر۔"

وفيه أيضا:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية."

(کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1725، ج:1، ص:541، ط:المکتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " وہ شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے (یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسے الفاظ اور ایسی آواز نکالے جو شرعا ممنوع ہے جیسے نوحہ یا واویلا کرنا وغیرہ وغیرہ)۔ "

وفيه أيضا:

"وعن أبي بردة قال: أغمي على أبي موسى فأقبلت امرأته أم عبد الله تصيح برنة ثم أفاق فقال: ألم تعلمي؟ وكان يحدثها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أنا بريء ممن حلق وصلق وخرق."

(کتاب الجنائز، باب دفن الميت، الفصل الأول، رقم الحدیث:1726، ج:1، ص:541، ط:المکتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت ابی بردہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں (ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بےہوش ہوگئے تو ان کی اہلیہ ام عبداللہ  چلا  چلا  کر  رونے  لگی  جب حضرت ابوموسیٰ کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم ؟ کہ چلا چلا کر رونا کتنا برا ہے چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوموسیٰ ان سے یہ حدیث بیان کرنے لگے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس شخص سے بے زار ہوں جو مصیبت و حادثہ کے وقت سر کے بال منڈائے، چلا چلا  کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔"

وفيه أيضا:

"وعن أبي مالك الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أربع في  أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن: الفخر في الأحساب والطعن في الأنساب والاستسقاء بالنجوم والنياحة ". وقال: النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب."

(کتاب الجنائز، باب دفن الميت، الفصل الأول، رقم الحدیث:1727، ج:1، ص:541، ط:المکتب الإسلامي)

ترجمہ: "حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: " زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میری امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے: (1) حسب پر فخر کرنا، (2) نسب پر طعن کرنا (3) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (4) نوحہ کرنا۔  نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:  " نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر  "قطران"  (تارکول) کی شلوار اور " خارش"  کا کرتا ہوگا۔"

لہذا مذکورہ واقعہ کی مناسبت  سے جو شخص بھی خلافِ شرع امور کے  ذریعے اپنے رسمی دکھ اور غم کو ظاہر کرےگا اور نوحہ خوانی کرے گا یا سنے گا تو  وہ مذکورہ وعیدوں میں داخل ہوگا ، الغرض نوحہ کرنا یا سننا ناجائز و حرام ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں