نومسلم کےلیےختنہ کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ضروری ہے تو کیا حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کے دور کے لاکھوں نو مسلم کے ختنہ کا ذکرکتابوں میں ملتاہے؟ختنہ کےلیے اپنی شرمگاہ دکھانا اور چُھوانا جائز ہے؟
مردوں کے حق میں ختنہ کرواناسنت اور شعائرِ اسلام میں سے ہے، بچپن میں ختنہ نہ ہونے کی صورت میں بلوغت کے بعد اور نو مسلم کےاسلام قبول کرنے کے بعد ختنہ کروائی جائے گی، البتہ بڑی عمر میں کوئی شخص اسلام قبول کرے اور ختنہ کی تکلیف برداشت نہ کر سکتا ہو، تو ختنہ نہ کرانے کی اجازت ہوگی۔
ختنہ کر وانے کے لیے شرمگاہ دکھانا، اور ختنہ کرنے والے کا شرمگاہ دیکھنا، اور اسے چھونا ضرورت کی وجہ سے جائز ہے۔بہرحال! مسلمان ہونے کا مدار ختنہ کرانے پر نہیں ہے، اگر کوئی غیر مسلم ایمان لانا چاہتا ہو تو وہ فوراً اسلام قبول کرلے، ختنہ کرائے بغیر بھی اس کا اسلام مقبول ہو گا، لیکن بہتر ہو گا کہ ختنہ بھی کرا لے۔
امداد الفتاوی میں ہے:
نو مسلم کی ختنہ کا حکم
سوال (۳۰۵) جو لوگ ہندو سے مسلمان ہوتے ہیں اُن کے ختنہ کرا دیئے جائیں تو واپسی سے یعنی ارتداد سے ایک قسم کی روک ہوجاتی ہے،لیکن پردہ فرض ہے اور ختنہ مسنون ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے زمانہ میں جو بالغ اشخاص مسلمان ہو ئےان کے ختنہ کرانا کہیں نظر سے نہیں گزرا ، جناب کو زیادہ واقفیت ہوگی، امید ہے کہ جواب سےجلد مطلع فرمائیں گے؟
الجواب، زمان برکت اقتران نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اس کے متعلق کوئی نقل صریح نظر سے نہیں گزری، لیکن نصوص میں اطلاق ہوا، اور صغیر اور کبیر میں کوئی فرق نہیں کیا گیا، اسی سے بعض فقہاءنے ختان کبیر کو بھی لکھا ہے، اور شرط امکان نکاح خاتنہ یا شراء امۃ خاتنہ کا حکم کیا ہے ، اور جب یہ متعذر ہو اس شرط کو بھی ساقط کیا ہے، کذا فی کتاب الحظر والاباحة من الدر المختار ورد المحتار، اور فرض ستر عورت ضرورت میں ساقط ہو جاتا ہے، اور سنت کی ضرورت مباح کی ضرورت سے بڑھ کر ہے، اور تداوی محض مباح ہے اس کے لئے نظر اور مس جائز ہے تو اس کے لیے بالاولی ، ۱۵ ذیقعده 1329ھ( تتمہ اولی ص ۱۳۵ )
(کتا ب الحظر والاباحت، ج:4، ص: 238۔239، ط:دارالعلوم کراچی)
فیض الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"واعلم أن الاختتان قبل البلوغ. وأما بعده، فلا سبيل إليه. وكان الشاه إسحاق رحمه الله تعالى يفتي باختتان من أسلم من الكفار، ولو كان بالغة، فاتفق مرة أن أسلم كافر كهول، فأمره بالاختتان، فاختتن، ثم مات فيه. فلذا [لا] أتوسع فيه، ولا آمر به البالغ، فإنه يؤذي كثيرا، وربما يفضي إلى الهلاك. أما قبل البلوغ، فلا توقيت فيه، وهو المروي عن الإمام الأعظم أبي حنيفة."
(كتاب الاستئذان، باب الختان بعد الكبر ونتف الإبط، ج:6، ص:214، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"إذا جاء العذر فلا بأس بالنظر إلى العورة لأجل الضرورة فمن ذلك أن الخاتن ينظر ذلك الموضع والخافضة كذلك تنظر لأن الختان سنة وهو من جملة الفطرة في حق الرجال لا يمكن تركه"
(كتاب الاستحسان، النظر إلى الأجنبيات، ج:10، ص: 156، ط:مطبعة السعادة - مصر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا تقطع جلدة ذكره إلا بتشديد ألمه ترك على حاله كشيخ أسلم وقال أهل النظر لا يطيق الختان) ترك أيضا"
(كتاب الخنثى،مسائل شتى، ج:6 ،ص: 751، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144611102740
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن