بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نومولود کے کان میں کئی روز بعد اذان دینا


سوال

اگر بچے کے کانوں میں پانچ چھ دن تک اذان نہ دی گئی تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ  بچہ  کی پیدائش کے بعداسے  ہاتھوں میں اٹھاکر  قبلہ رخ ہوکردائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہنا اورحی علی الصلاح ،حی علي الفلاح کے وقت  حسب ِ معمول دائیں بائیں طرف منہ پھیرنا مستحب ہے  ، تاہم اگر کسی مجبوری کی وجہ سےپیدائش کے بعد اذان نہ کہی جاسکی ہو اورکچھ دن گزرگئے ہیں تو اب بچہ کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں  تکبیر  کہہ  لینی چاہیے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن عبيد الله بن أبي رافع عن أبيه، قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أذن في أذن الحسن بن علي ‌حين ‌ولدته ‌فاطمة بالصلاة".

(سنن ابی داود،اول کتاب الادب،باب فی الصبی یولدفیؤذن فی اذنہ، ج:۷،ص:۴۳۱،رقم الحدیث:۵۱۰۵،دار الرسالۃ العالمیۃ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أبي رافع - رضي الله عنه -) أي مولى النبيّ - صلّى الله عليه وسلّم - قال: «رأيت رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم ۔ أذّن في أُذن الحسن بن علي» ) بضم الذال ويسكن (‌حين ‌ولدته ‌فاطمة) : يحتمل السابع وقبله (بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي".

(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الصیدوالذبائح،باب العقیقۃ،ج:۷،ص:۲۶۹۱،ط:دار الفکر)

الدرالمختار میں ہے:

"(ويلتفت فيه يميناً ‌ويساراً) فقط؛ لئلاّ يستدبر القبلة (بصلاة وفلاح) ولو وحده أو لمولود؛ لأنّه سنة الأذان مطلقاً"...... (قوله: ولو وحده إلخ) أشار به إلى رد قول الحلواني: إنه لا يلتفت لعدم الحاجة إليه ح. وفي البحر عن السراج أنه من سنن الأذان، فلا يخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود ينبغي أن يحول. (قوله مطلقا) للمنفرد وغيره والمولود وغيره ط".

(الدر مع الرد،کتاب الصلاۃ،باب الاذان،ج:۱،ص:۳۸۷،ط:سعید)

تقریرات الرافعی میں ہے:

"(قوله:حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود ينبغي أن يحول):قال السندي: فيرفع المولود عند الولادة على يديه مستقبل القبلة، ويؤذّن في أذنه اليمني ويقيم في اليسرى ويلتفت فيهما بالصلاة لجهة اليمين وبالفلاح لجهة اليسار. وفائدة الإذن في أذنه أنه يدفع أمّ الصبيان عنه" .

(تقریرات الرافعی،کتاب الصلاۃ،باب الاذن،ج:۱،ص:۴۵،ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:بعض ملکوں میں قانون ہے کہ بچہ کی پیدائش کے بعدایک صندوق میں رکھ دیتے ہیں ،ہفتہ ،عشرہ کے بعد بچہ کودیتے ہیں،ان ایام میں ماں بھی ہسپتال میں رہتی ہے،بچہ کو تودیکھ سکتی ہےمگر چھونہیں سکتی ہے۔تو اس حالت میں ہفتہ،عشرہ کے بعداذان کہیں تومضائقہ تونہیں؟اذان واقامت کس کان میں ہے؟

جواب:مجبوری کے وقت اس کو مکان پر لاکراس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں تکبر کہہ دی جائے ۔فقظ واللہ سبحانہ تعالی اعلم"

(فتاوی محمودیہ،کتاب الصلاۃ،باب الاذان،جلدپنجم،ص:۴۵۶،ط:ادارۃالفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں