بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمبرات پاس رکھ کر دولت آنے کا اعتقاد رکھنا


سوال

کسی نے کہا کہ اگر کوئی شخص ان نمبروں کو ایک کاغذ پر سبز قلم کے ساتھ لکھ کر اپنے پاس رکھے تو دولت آئے گی۔  وہ نمبر یہ ہے، 808 520 741۔ اسلام میں ان نمبروں کے بارے میں کیا حکم ہے؟  یہ نمبر کس چیز کی مشابہت کرتے ہیں،کیا یہ شرک میں آتا ہے؟ اور یہ عمل جائز ہے یا گناہ ہے؟

جواب

نمبرات لکھ کر پاس رکھنا،اور اس سے دولت آنے کا اعتقاد رکھنا یہ سب خرافات اور ناجائز امور ہیں  ان سےاحتراز لازمی ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"ابجد کے موافق اعداد کا شمار اور اعتبار کرنابعض چیزوں (مثلاً تاریخِ وفات یا تاریخِ پیدائش )میں جائز ہے،لیکن  ''علمِ ابجد'' اور ''نمرالوجی'' کے ذریعہ ایسا کام لیناجیساکہ علمِ نجوم میں لیاجاتاہے، جیسے فال نکالنا، زائچے بناکر کسی کے حالات معلوم کرنا اور اس پر یقین کرنا وغیرہ یہ جائز نہیں ۔"

(کفایت المفتی ،  ج:9، ص:222، ط:دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: والتنجيم) هو علم يعرف به الاستدلال بالتشكلات الفلكية على الحوادث السفلية. اهـ. ح. وفي مختارات النوازل لصاحب الهداية أن علم النجوم في نفسه حسن غير مذموم، إذ هو قسمان: حسابي وإنه حق، وقد نطق به الكتاب. قال الله تعالى - {الشمس والقمر بحسبان} [الرحمن: 5]- أي سيرهما بحساب. واستدلالي بسير النجوم وحركة الأفلاك على الحوادث بقضاء الله تعالى وقدره، وهو جائز كاستدلال الطبيب بالنبض من الصحة والمرض ولو لم يعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى الغيب بنفسه يكفر، ثم تعلم مقدار ما يعرف به مواقيت الصلاة والقبلة لا بأس به. اهـ. وأفاد أن تعلم الزائد على هذا المقدار فيه بأس بل صرح في الفصول بحرمته وهو ما مشى عليه الشارح. والظاهر أن المراد به القسم الثاني دون الأول؛ ولذا قال في الإحياء: إن علم النجوم في نفسه غير مذموم لذاته إذ هو قسمان إلخ ثم قال ولكنه مذموم في الشرع. وقال عمر: تعلموا من النجوم ما تهتدوا به في البر والبحر ثم امسكوا، وإنما زجر عنه من ثلاثة أوجه:أحدها: أنه مضر بأكثر الخلق، فإنه إذا ألقى إليهم أن هذه الآثار تحدث عقيب سير الكواكب وقع في نفوسهم أنها المؤثرة. وثانيها: أن أحكام النجوم تخمين محض، ولقد كان معجزة لإدريس - عليه السلام - فيما يحكى وقد اندرس. وثالثها: أنه لا فائدة فيه، فإن ما قدر كائن والاحتراز منه غير ممكن اهـ ملخصاً".

(المقدمة، ج:1، ص:43، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں