بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازجنازہ کےبعددعاکرنےکاحکم


سوال

گاؤں میں ایک طالب علم نے اپنے والدصاحب کاجنازہ پڑھایا،اوراس کےبعد ہاتھ اٹھاکردعانہیں کی،اس بات پرلوگوں کےدرمیان  اختلاف پیداہوگیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیاجنازہ کےبعد ہاتھ اٹھاکردعاکرنادرست ہے یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جنازہ کی نمازبذات خود دعاہے،اورجنازہ میں میت کرلیے مغفرت کی دعاکرناہی اصل ہے،نمازجنازہ کےبعدہاتھوں کواٹھاکردعاکرناقرآن ،حدیث،صحابہ،مجتہدین اورآئمہ فقہائے کرام سمیت کسی سے بھی ثابت نہیں ہے،بلکہ بدعت ہونے کی وجہ سے فقہائے کرام نےمنع فرمایاہے،لہذا نمازجنازہ کےبعداجتماعی طورپرہاتھ اٹھاکردعاکرنامکروہ اوربدعت ہے،البتہ انفرادی طورپر بغیرہاتھ اٹھائے دل میں دعاکی جاسکتی ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة ‌لأنه ‌يشبه الزيادة في صلاة الجنازة."

(كتاب الجنائز، المشي بالجنازة والصلاة عليها، ج:3، ص:1213، ط:دار الفكر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا ‌مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز، ج:2، ص:205، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”جواب:یہ بات ثابت نہیں قرآن کریم،حدیث شریف اورکتب فقہ میں کہیں اس کاحکم نہیں دیکھا،حالانکہ چھوٹےچھوٹےمستحبات بھی کتب فقہ میں مذکورہیں ،بلکہ بعض کتب میں نماز جنازہ کےبعددعاءکومنع کیاگیاہے،(اس لئے کہ نماز جنازہ خودمیت کےلئے دعاہے،“

(فتاوی محمودیہ، ج:8، ص:708، ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

کفایۃ المفتی میں ہے:

”جواب:نمازجنازہ کےبعدمتصل ہاتھ اٹھاکردعامانگنےکاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے،اورنمازجنازہ خودہی دعاہے،ہاں لوگ اپنے اپنے دل میں بغیرہاتھ اٹھائے دعائے مغفرت کرتے رہیں تویہ جائز ہے،اجتماعی دعاہاتھ اٹھاکرکرنابدعت ہے۔“

(کفایۃ المفتی، ج:4، ص:96، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں