بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازی کے سامنے سے گزرنے کا حکم


سوال

1:نمازی  کے سامنے سے گزرنا تو گناہے، تو کیا شریعت مطہرہ میں  اس کی کوئی حد ہے، جس کی وجہ سے گناہ سے بچ سکے؟

2:جس طرح  نماز کے دوران شلوار کو ٹخنوں سے اوپر کرنا ضروری ہے، تو کیا نماز کے علاوہ عام حالات میں بھی اوپر کرنا ضروری ہے؟

3:ایک مسافر شخص حالت سفر میں اگر ایسی جگہ میں ہو کہ وہاں کوئی امام مقرر نہ ہو، اور مقتدیوں میں کوئی  بھی امامت کے قابل نہ ہو، تو کیا مسافر شخص مغرب کی نماز کے علاوہ باقی نمازوں(جو رکعت والی نماز ہے) میں بھی امامت کرسکتاہے؟

جواب

1: واضح رہے کہ اگر نمازی چھوٹی مسجد یا چھوٹے مکان میں ہو اور اس کے سامنے کوئی سترہ (کم از کم ایک گز شرعی کے برابراونچی اور کم از کم ایک انگلی کے برابرموٹی کوئی چیز) نہ ہو تو اس کے سامنے سے گزرنا ناجائز اور بہت سخت گناہے، لیکن اگر نماز ی کسی بڑی مسجد (کم ازکم چالیس شرعی گز یا اس سے بڑی مسجد) یا بڑا مکان میں نماز پڑھ رہاہو تو ایسی صورت میں اتنے آگے سے گزرناجائز ہے کہ اگر نمازی اپنی نظر سجدہ کے جگہ پر رکھے تو گزرنے والااسے نظر نہ آئے جس کا اندازہ نمازی کی جائے قیام سے تین صف آگے تک کیا گیا ہے ۔

2: پائنچے چاہے نماز میں   ہو یا عام حالت  میں ہو   ٹخنوں سے اوپر رکھنا ضروری ہے، یعنی پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنا ہر حالت میں شرعا ناجائز ہے، البتہ اگر کبھی  غیر ارادی طور پر شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے۔

3:مسافر امام کے پیچھے مقیم کا نماز ادا کرنا شرعا درست ہے،چاہے وہ مغرب کی نماز ہو یاکوئی اورنماز، اور  مسافر امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقیمین اپنی بقیہ نماز بغیر قراءت کے مکمل کریں گے، البتہ مسافر  امام کے لیے مستحب یہ ہے کہ اپنی نماز مکمل کرکے سلام پھیرنے کے بعد اپنے مسافر ہونے کا اعلان کردے، اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے بھی اپنے مسافر ہونے کی اطلاع کردے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(ومرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقا) 

ــ(قوله بموضع سجوده) أي من موضع قدمه إلى موضع سجوده كما في الدرر، وهذا مع القيود التي بعده إنما هو للإثم، وإلا فالفساد منتف مطلقا (قوله في الأصح) هو ما اختاره شمس الأئمة وقاضي خان وصاحب الهداية واستحسنه في المحيط وصححه الزيلعي، ومقابله ما صححه التمرتاشي وصاحب البدائع واختاره فخر الإسلام ورجحه في النهاية والفتح أنه قدر ما يقع بصره على المار لو صلى بخشوع أي راميا ببصره إلى موضع سجوده... (قوله ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعا، وقيل من أربعين، وهو المختار كما أشار إليه في الجواهر قهستاني (قوله فإنه كبقعة واحدة) أي من حيث إنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الاقتداء تنزيلا له منزلة مكان واحد، بخلاف المسجد الكبير فإنه جعل فيه مانعا فكذا هنا يجعل جميع ما بين يدي المصلي إلى حائط القبلة مكانا واحدا، بخلاف المسجد الكبير والصحراء فإنه لو جعل كذلك لزم الحرج على المارة."

[كتاب الصلاة، ج:1، ص:634، ط:سعيد]

مرقاۃ  المفاتیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «ما أسفل من الكعبين من الإزار في النار» . رواه البخاري.

(ففي النار) قال الخطابي: يتناول هذا على وجهين، أحدهما: أن ما دون الكعبين من قدم صاحبه في النار عقوبة له على فعله، والآخر: أن فعله ذلك في النار أي هو معدود ومحسوب من أفعال أهل النار، قال النووي: الإسبال يكون في الإزار والقميص والعمامة، ولا يجوز الإسبال تحت الكعبين إن كان للخيلاء، وقد نص الشافعي على أن التحريم مخصوص بالخيلاء لدلالة ظواهر الأحاديث عليها، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم، وإلا فمنع تنزيه."

[كتاب اللباس، ج:7، ص:2866، ط:دار الفكر.]

مراقی الفلاح میں ہے:

"وإن اقتدى مسافر بمقيم في الوقت صح وأتمها أربعا وبعده لا يصح وبعكسه صح فيهما وندب للإمام أن يقول أتموا صلاتكم فإني مسافر وينبغي أن يقول ذلك قبل شروعه في الصلاة ولا يقرأ المقيم فيما يتمه بعد فراغ إمامه المسافر في الأصح وفائته..."وبعكسه" بأن ‌اقتدى ‌مقيم ‌بمسافر "صح" الاقتداء "فيهما" أي في الوقت وفيما بعد خروجه لأنه صلى الله عليه وسلم صلى بأهل مكة وهو مسافر وقال "أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر" وقعوده فرض أقوى من الأول في حق المقيم ويتم المقيمون منفردين بلا قراءة ولا سجود سهو ولا يصح الاقتداء بهم."

[كتاب الصلاة، ص:164، ط:المكتبة العصرية]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں