بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نماز کی نیت کا طریقہ، پیشاب کے قطرے گرنے کا شک ہو تو وضو کا حکم


سوال

1:  قضا  نمازیں  بہت ہیں، اب ان کی نیت کیسے کرنی چاہیے،  مثلاً فجر نماز کی پہلی قضا  نماز ، پھر دوسری قضا نماز کی،  پھر تیسری یا کوئی اور طریقہ کار ہے؟

 2:  مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیشاب کے قطرے گرے ہوئے ہیں، لیکن جب دیکھتا ہوں تو کچھ بھی نہیں ہوتا،  شلوار صاف ہوتی ہے، اگر کچھ لگ جائے تو دھونا ضروری ہے یا نہیں؟ یا صرف وضو کیا جائے؟ اس شک کی وجہ سے اکثر نماز رہ جاتی ہے۔

جواب

قضا نماز کی نیت   ضروری ہے ، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ  جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے،  اس کی مکمل تعیین کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً:  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں۔ اگر فوت شدہ نمازیں زیادہ ہونے کی وجہ سے یاد ہی نہ ہو اور اس کو متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً: جتنی فجر کی نمازیں قضاہوئی ہیں،  ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں، یا مثلاً: جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں،  ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں۔ اسی طرح یوں بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ : جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئیں،  ان میں سے سب آخری ظہر کی نماز ادا کررہاہوں۔

نیز ملحوظ رہے کہ قضا نمازوں میں صرف فرض پڑھنے ہوتے ہیں، سنت نہیں، البتہ نمازِ وتر واجب ہے ، اس لیے عشاء کی قضاکرتے  ہوئے وتر کی قضا کرنا بھی لازم ہے۔

2: صرف یہ احساس ہونا کہ پیشاب کے قطرے گرے ہیں  ، جب کہ حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا، تویہ  شیطان کی طرف سے محض ایک وہم اور وسوسہ ہے،  اور شیطانی وسوسے کے مطابق عمل کرنے سے حضوراکرمﷺ نےمنع فرمایا ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الطہارۃ، ج:1، ص:197، ط:دارالاشاعت)

 لہذا جب بھی ایسا وسوسہ آجائے تو اس کی پرواہ نہ کریں  ، اپنی نماز پڑھا کریں، اس تدبیر پر عمل  کریں گے تو ان شاء اللہ وسوسہ کی بیماری ختم ہوجائے گی، البتہ اگر واقعتًا کپڑوں پر پیشاب کا قطرہ گرجائے تو  جہاں گراہے وہی جگہ  پاک کرلی  جائے اور وضو کیا جائے ، محض شک اور شبہ کی بنا پر نہ کپڑوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے اور نہ وضو کرنے کی ضرورت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

'' كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره''۔

''(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً أو يقول آخر فجر، فإنّ ما قبله يصير آخراً، ولا يضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت''.

(باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:76، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ولا يجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها، كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي''.

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:52، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا تنجس طرف من أطراف الثوب ونسيه فغسل طرفًا من أطراف الثوب من غير تحر حكم بطهارة الثوب هو المختار".

(الفصل الاول فى تطهير الانجاس، ج:1، ص:43، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں