بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے تشہد پڑھنے سے سجدہ سہو کا حکم


سوال

کیا فرض نماز کی دوسری رکعت اور سنتِ مؤکدہ کی پہلی رکعت کے علاوہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے تشہد/ التحیات پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے؟ احسن الفتاوی کے تتمہ میں سنت میں ایسا کرنے سے وجوبِ سجدہ کی تصریح ہے اور یہ چونکہ ثناء کا محل نہیں ہے، اس لیے لگتا بھی یہی ہے، براہِ کرم اس مسئلے میں رہنمائی چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ نماز میں کسی واجب کے ترک کرنے یا کسی واجب کی کمی زیادتی یا اس میں تاخیر کرنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، لہذا جہاں ان میں سے کوئی بات پائی جائے گی تو وہاں سجدہ سہو لازم ہوگا ورنہ نہیں، اس لیے مذکورہ ضابطے کی رو سے مختلف جزئیات بنیں گی، جن کے احکام بھی مختلف ہوں گے۔

1-  اگر کسی نے فرض نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے  تشہد یعنی التحیات پڑھ لی تو یہ چوں کہ ثنا کا محل ہے اور التحیات میں بھی حمد وثنا ہے ، اس لیے اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر فرض نماز کی آخری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ سے پہلے التحیات پڑھ لی تو بھی سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، کیونکہ فرض کی آخری دو رکعتوں میں قراءت واجب نہیں ہے، اسی طرح اگر سنتِ مؤکدہ کی پہلی رکعت اور سننِ غیر مؤکدہ اور نوافل  کی پہلی اور تیسری رکعت میں بھی سورۂ فاتحہ سے پہلے  التحیات پڑھ لی تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔

2- اگر کسی نے فرض نماز کی  دوسری رکعت  میں سورۂ فاتحہ سے پہلے التحیات پڑھ لی یا سنتِ مؤکدہ کی پہلی رکعت کے علاوہ کسی بھی رکعت میں التحیات پڑھ لی یا سننِ غیر مؤکدہ اور نوافل کی دوسری اور چوتھی رکعت میں التحیات پڑھ لی تو ان صورتوں میں  سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ اس میں فقہاءِ کرام کااختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ ان صورتوں میں بھی سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔

تاہم اگر کسی نے فرض کی دوسری رکعت یا سنتِ مؤکدہ کی دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت یا سننِ غیر مؤکدہ اور نوافل کی دوسری اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے پہلے التحیات پڑھ لی تو پھر ان صورتوں میں واجب میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قرأ التشهد في القيام، إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه شيء، وإن كان في الركعة الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب كذا في الظهيرية."

(ج:1، ص:127، كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، ط:رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الظهيرية: لو تشهد في القيام، إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه شيء، وإن كان في الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب اهـ. فقد اختلف التصحيح، والظاهر الأول المنقول في التبيين وغيره."

(ج:2، ص:105، كتاب الصلاة، باب سجود السهو، ط:دار الكتاب الإسلامي)

البناية شرح الہدایہ میں ہے:

"قرأ التشهد قائما، إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه شيء، وإن كان في الثانية اختلف المشايخ فيه، والأصح أنه لا يجب."

(ج:2، ص:611، كتاب الصلاة، باب سجود السهو، ط:دار الكتب العلمية) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں