بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نماز میں سلام سے پہلے جہنم اور قبر کے عذاب سے پناہ والی دعا پڑھنا ضروری ہے؟


سوال

کیا نماز میں درود شریف کے بعد جو دعا حدیث میں ہے ؛کہ اے میرے پرور دگار مجھے جہنم سے اور قبر کے عذاب سے بچا اور فتنہ موت اور دجال کے فتنے سے بچا ؛یہ والی دُعا پڑھنا لازم ہے یا صرف ربی جعلنی پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب

قعدہ اخیرہ میں درود شریف کے بعد تمام نمازوں (فرض، سنت غیرہ) میں قرآن و حدیث میں منقول دعائیں پڑھ سکتے ہیں، جو دعا آپ نے سوال میں ذکر کی ہے یہ دعا پڑھنا بھی درست ہے، نیز ایک سے زیادہ دعائیں  پڑھنا یا ایک دعاکو تکرار کے ساتھ پڑھنا بھی درست ہے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا﴾ [البقرة: 286] ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا﴾ [آل عمران: 8] ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ﴾ [نوح: 28] ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً﴾ [البقرة: 201] إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، و من أحسنها ما في صحيح مسلم:«اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»."

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،آداب الصلاۃ،1/ 349،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين ... (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس) اضطرب فيه كلامهم ولا سيما المصنف؛ والمختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لايفسد،  وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لايفسد وإلا يفسد لو قبل قدر التشهد، وإلا تتم به ما لم يتذكر سجدة فلاتفسد بسؤال المغفرة مطلقًا ولو لعمي أو لعمرو، وكذا الرزق ما لم يقيده بمال ونحوه لاستعماله في العباد مجازًا".

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،521/1،ط:سعید)

احسن الفتاوی میں ہے:

"عنوان:تاخیر ِسلام موجبِ سجدہ سہو ہے:

سوال:اگر کسی نے قعدہ اخیرہ میں تشہد،درود شریف اور دعا پڑھ لی،لیکن سلام پھیرنے اور خروج بصنعہٖ میں تاخیر کی،کیا ایسے شخص پر سجدہ سہو لازم ہے؟

جواب:اگر مزید دعائیں پڑھتا رہا یا حمد وثناء وغیرہ ذکر میں مشغول رہا تو سجدہ سہو نہیں خواہ کتنی ہی تاخیر ہوجائے،البتہ اگر بقدر تین بار سبحان ربی الاعلیٰ عمداً خاموش رہا تو نماز واجب الاعادہ ہے،اور سہواً اتنی دیر خاموش رہا تو سجدہ سہو واجب  ہے۔"

(کتاب الصلاۃ،باب سجدۃ السھو،38/4،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101951

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں