بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ذاتی حاجت کےلیے دعا کرنا اور کسی بھی زبان میں دعا کرنا


سوال

کیا فرض اور نفل نماز میں آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے لیے دعا مانگنا جائز ہے؟صرف عربی میں دعا کرنا چاہئیے یا کسی اورزبان میں؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی شخص نمازفرض ہو یا نفل کے آخر میں ماثور دعاؤں کے علاوہ کوئی اور دعا مانگنا چاہتا ہو تو اس کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک تو وہ دعا عربی زبان میں مانگی جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا میں  ایسی چیز  مانگی جائے جو چیز مخلوق سے نہ مانگی جاسکتی ہو، مثلاً  توفیق ملنے کی دعا، قبولیت  کی دعا، حج یا عمرہ کی دعا، یا غم وحزن  کی دوری کی دعا کرسکتے ہی، لیکن دعا میں روٹی مانگنا یا پیسے مانگنا  جوچیزیں بندوں سے عموماً مانگی جاتی ہیں یہ نماز میں جائز نہیں ہے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل:﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا ﴾ ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا ﴾، ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ﴾ ، ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ﴾إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، ومن أحسنها ما في صحيح مسلم: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»".

 (كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة 1/ 349 ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين ... (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس) اضطرب فيه كلامهم ولا سيما المصنف؛ والمختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لايفسد،  وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لايفسد وإلا يفسد لو قبل قدر التشهد، وإلا تتم به ما لم يتذكر سجدة فلاتفسد بسؤال المغفرة مطلقًا ولو لعمي أو لعمرو، وكذا الرزق ما لم يقيده بمال ونحوه لاستعماله في العباد مجازًا".

 (  كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة 1/ 521 ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں