بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں سلام وکلام کی ممانعت کی تاریخ


سوال

نماز میں سلام و کلام کرنا کس ہجری میں منع کیا گیا؟

جواب

ابتداءِ اسلام میں دیگر احکامات میں نرمی کی طرح  نماز میں سلام اور کلام ممنوع نہیں تھا، تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا اور احکامات نازل ہونے لگے تو نماز کے دوران سلام اور کلام کی ممانعت آئی، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے،

"عن علقمة، عن عبد الله، قال: كنا نسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة، فيرد علينا، فلما رجعنا من عند النجاشي، سلمنا عليه فلم يرد علينا، فقلنا: يا رسول الله كنا نسلم عليك في الصلاة فترد علينا، فقال: «إن في الصلاة شغلا»"

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں نماز کی حالت میں سلام کرلیا کرتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سلام کا جواب بھی دیا کرتے تھے، پھر جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے تو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب نہیں دیا، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نماز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام کرتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سلام کا جواب بھی دیتے تھے! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نماز ہی میں مشغول رہنا چاہیے۔ (نماز میں تسبیحات اور قرأت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنی چاہیے) "

(صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، بات تحریم الکلام فی الصلوۃ، رقم الحدیث:538، ج:1، ص:382، ط:داراحیاءالتراث العربی)

چوں کہ اہلِ مکہ کی طرف سے حالات سخت ہونے کے بعد نبوت کے پانچویں سال ہجرت اولیٰ سے واپسی کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ  ہجرت کرنی پڑی، (ملحوظ رہے صحیح قول کے مطابق ہجرتِ اولیٰ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ شریک نہیں تھے)،  ان  میں سے اکثر آپﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد واپس آکر غزوہ بدر میں شریک ہوئے،  جن میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے،اگرچہ باقی صحابہ حضرت جعفر بن طیار رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سات ہجری کو فتح خیبر کے موقع پر واپس آئے تھے، لہذا معلوم ہوا کہ  نماز میں سلام، کلام کی ممانعت پانچ نبوی کے بعد، سن دو ہجری سے پہلے ہوئی تھی۔

فتح الباري لابن حجر  میں ہے:

"قوله: "ورجع عامة من كان هاجر بأرض الحبشة إلى المدينة" أي لما سمعوا باستيطان المسلمين المدينة رجعوا إلى مكة فهاجر إلى أرض المدينة معظمهم لا جميعهم، لأن جعفرا ومن معه تخلفوا في الحبشة، وهذا السبب في مجيء مهاجرة الحبشة غير السبب المذكور في مجيء من رجع منهم أيضا في الهجرة الأولى، لأن ذاك كان بسبب سجود المشركين مع النبي صلى الله عليه وسلم والمسلمين في سورة النجم فشاع أن المشركين أسلموا وسجدوا فرجع من رجع من الحبشة فوجدوهم أشد ما كانوا."

(باب هجرة النبى صلى الله عليه وسلم  واصحابه، ج:7، ص:234، ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144206200330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں