بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں کذابا کے بجائے کذابہ پڑھنے کا حکم


سوال

اگر کسی نے "وكذبوا بآيتنا كذابا"کی جگہ "كذابه"پڑھے تو نماز صحیح ہوگي؟دلیل کے ساتھ بتائے۔

جواب

اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیرِ فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اوراس کے معنی میں ادنی مناسبت بھی نہ ہواور  غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے، صورتِ مسئولہ میں اگر کسی نے" وكذبوا بآيتنا كذابا" کے بجائے "وكذبوا بآيتنا كذابه" پڑھا تونماز ہو جائے گی ،لیکن اس طرح کی غلطی سے کراہت آجاتی ہے اور ثواب کم ہو جاتا ہے،اور کبھی کبھار پڑھنے والا درست پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن سامع کو غلط سنائی دیتاہے، ایسی صورت میں کراہت بھی نہیں ہو گی اور ثواب میں کمی بھی نہیں ہو گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) ذكر حرف مكان حرف إن ذكر حرفا مكان حرف ولم يغير المعنى بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبه ذلك لم تفسد صلاته وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته. هكذا في فتاوى قاضي خان."

(الفصل الخامس في زلة القارئ، ج: 1، ص: 79، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن كان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمكن الفصل بينهما بلا كلفة كالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مكان الصالحات فاتفقوا على أنه مفسد، وإن لم يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين فأكثرهم على عدم الفساد لعموم البلوى."

( ج: 1، ص: 631، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں