بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے جلسہ میں دعا پڑھنے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ دو سجدوں کے درمیان (جس کو جلسہ کہتے ہیں)، یہ دعا"اللَّهمَّ اغْفِرْ لي، وارْحَمْنِي، وعافِني، واهْدِني، وارزقْنِي" حدیث کے روشنی میں اس کی وضاحت پیش کیجئے کہ قوی حدیث سے مروی یا ضعیف حدیث سے؟اگر قوی حدیث سے منقول ہے تو عام طور پر علماء کرام ان کے پڑھنے کی تاکید کیوں نہیں کرتے؟ اور اس دعا کو کن نمازوں میں  پڑھنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ دو سجدوں کے درمیان جو دعا پڑھی جاتی ہے ،وہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ،جس کو امام ابوداؤد نے اپنی سنن ابی داؤد میں اور دیگر ائمہ حدیث نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔

چونكه حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ امت کو سکھایا پھر اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ"صلوا کما رأيتموني اصلي " جیسے میں نماز پڑھ  رہا ہوں ویسے ہی نماز پڑھو،اس طريقه نماز ميں مذكوره دعا كا كوئي ذكر نهيں،  باقی اس دعا کے پڑھنے کا محل کیا ہے تواس کے بارے میں فقهائے كرام نے لکھاہے کہ اس حدیث میں جو  دعا دو سجدوں کے درمیان پڑھنے کا ذکر ہے وہ نفل  نمازوں پر محمول ہے،یعنی اس دعا کو نفل میں پڑھنا افضل هے،چونكه مذكوره دعاکا پڑھنا فرض واجب نہیں بلکہ نفل ہے اور نفل عبادات کی ترغیب دی جاتی ہے اور علماء اس کی ترغیب دیتے ہیں۔

سنن ابی داؤ میں ہے:

"حدثنا محمد بن مسعود، حدثنا زيد بن الحباب، حدثنا كامل أبو العلاء، حدثني حبيب بن أبي ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول بين السجدتين: «اللهم اغفر لي، وارحمني، وعافني، واهدني، وارزقني."

(‌‌أبواب تفريع استفتاح الصلاة،باب الدعاء بين السجدتين،244/1،ط:المکتبة العصریة)

خلاصۃ الاحکام میں ہے:

"وعن ابن عباس رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول بين السجدتين: " اللهم اغفر لي، وارحمني، وعافني، واهدني، وارزقني " رواه أبو داود، والترمذي، وآخرون بإسناد حسن.

 قال الحاكم: " هو صحيح الإسناد."

(كتاب مواضع الصلوةالخ،باب الجلوس بين السجدتين،415/1،ط:مؤسسة الرسالة)

مشكاة المصابيح ميں هے:

"وعنه قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: صلوا ‌كما ‌رأيتموني أصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم."

(كتاب الصلوة،215/1،ط:المكتب الاسلامي)

بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ابن عباس قال: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول بين السجدتين: اللهم اغفر لي) أي: ذنوبي، أو تقصيري في طاعتي (وارحمني) من عندك لا بعملي، أو ارحمني بقبول عبادتي (وعافني) من البلاء في الدارين، أو من الأمراض الظاهرة والباطنة (واهدني) لصالح الأعمال، أو ثبتني على دين الحق (وارزقني) رزقا حسنا، أو توفيقا في الطاعة، أو درجة.

قال الشوكاني : والحديث يدل على مشروعية الدعاء بهذه الكلمات في القعدة بين السجدتين، وقال القاري : وهو محمول على التطوع عندنا."

(كتاب الصلوة،باب الدعاء بين السجدتين،299/4،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں