بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے لیے نہ بلانا گناہ نہیں


سوال

اگر خود نماز کے لیے جاتے ہیں اور  دوسرا شخص جو نماز کے لیے نہیں جاتا،  کیا اس کو نماز کی دعوت نہ  دینا گناہ ہےیا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ  نماز ایک عالی شان عبادت ہے ، اور اللہ تعالی کا حکم  ہے،اگر کوئی مسلمان اس  فریضہ کی ادائیگی میں لاپرواہی کرتا ہےتو دوسرے مسلمان کو چاہیے کہ اس کو نمازکی دعوت دے،چنانچہ قرآن پاک  میں حضرت لقمان علیہ السلام کی  نصیحت کو بطورِ حکایت نقل کیا گیاہے:

"يَٰبُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَوٰةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(لقمان17) 

ترجمہ:"اے میرے بیٹے! نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا۔ یقین مانو کہ یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے"۔

اسی طرح سورۃ طہ میں ہے"

وَامُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا"

ترجمہ :اورحکم کرو  اپنے گھروالوں کو نماز کا اور خود بھی اس پر قائم رہنا،

البتہ نماز نہ پڑھنے والا اگر اپنا ماتحت ہے، مثلاً ، بیٹا ، بیٹی وغیرہ جوسائل کے گھر میں رہتےہیں تو اسے نماز کا حکم دیناضروری ہے،اگر اس کو نماز کے  لیے نہیں بلائے گا تو باپ بیٹادونوں گناہ گار ہوں گے،البتہ اس حکم میں وہ بیٹا،بیٹی شامل نہیں ،جو   اپنے باپ سے الگ  رہ رہا ہے،اوراگر نماز نہ پڑھنے والا ماتحت نہیں ہےاور اسے نماز کی فرضیت کا علم ہے، تو  چوں کہ اسے اللہ کا حکم پہنچ چکا ہے، اس  لیے اب اسےیاد دہانی کرانا مستحب عمل ہے،(اُس تارکِ نماز کو) یاد دہانی نہ  کرانے والے کو  گناہ گار نہیں کہا جاسکتا۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے، لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  کی صراحت قرآنِ کریم میں ہے، سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مؤمن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول ﷺ کی ہدایت کے موافق پہنچاتا رہے۔"

(فتاوی محمودیہ، کتاب العلم، باب التبلیغ   4/ 203 ط: فاروقیہ)

أحكام القرآن ـ للجصاص  (2 / 315) میں ہے:

"قال اللّه تعالى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} قال أبو بكر: قد حوت هذه الآية معنيين: أحدهما: وجوب الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر، و الآخر أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره؛ لقوله تعالى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ} وحقيقته تقتضي البعض دون البعض، فدلّ على أنه فرض على الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين، و من الناس من يقول: هو فرض على كل أحد في نفسه، و يجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ} مجازًا كقوله تعالى: {لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ} ومعناه ذنوبكم، و الذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين كالجهاد و غسل الموتى و تكفينهم و الصلاة عليهم و دفنهم، و لو لا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به."

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں