عورتوں کی تبلیغ جائز ہے یا نہیں ؟ یعنی عورتوں کا گھر سے بلا ضرورت شرعی نکلنا اسلام میں جائز نہیں ہے، تو پھر تبلیغ کی وجہ سے اسے گھر سے باہر نکلنا جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہےکہ اس پر فتن زمانہ اور پر آشوب وقت میں عورت کا شرعی اور طبعی ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نکلنا اور محرم کے بغیر مختلف جگہوں میں سفر کرنا اور نامحرم لوگوں سے اختلاط کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے،البتہ شدید ضرورت کے وقت ۴۸ میل سےکم مسافت میں فتنہ کا احتمال نہ ہونے کی صورت میں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر، زیب وزینت کے بغیر، محرم کے بغیر بھی باہر نکلنے کی اجازت ہے، لیکن ۴۸ میل یا اس سے زائد مسافت کی صورت میں محرم کے بغیر باہر نکلنا جائز نہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے"، نیز اللہ تعالی نے قرآنِ پاک میں عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا، اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق بے پردگی کے ساتھ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے سے منع کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کی ابتدائی دور میں عورتوں میں دین کی دعوت وتبلیغ کی ضروریت موجودہ دور کی ضرورت سے زیادہ تھی، اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے؛لہذا موجودہ زمانہ میں بھی درست نہیں ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى} [الأحزاب : 33]
ترجمہ: تم اپنے گھر میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو۔(بیان القرآن)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: وقرن في بيوتكن أي الزمن فلا تخرجن لغير حاجة، ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تمنعوا إماء الله مساجد الله وليخرجن وهن تفلات» وفي رواية «وبيوتهن خير لهن»."
[سورة الأحزاب، ج:6، ص:363، ط:دار الكتب العلمية]
تفسیر روح المعانی میں ہے:
"وأخرج البزار عن أنس قال جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يا رسول الله ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى فهل لنا عمل ندرك به فضل المجاهدين في سبيل الله تعالى فقال عليه الصلاة والسلام: «من قعدت منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين في سبيل الله تعالى».
وقد يحرم عليهن الخروج بل قد يكون كبيرة كخروجهن لزيارة القبور إذا عظمت مفسدته وخروجهن ولو إلى المسجد وقد استعطرن وتزين إذا تحققت الفتنة أما إذا ظنت فهو حرام غير كبيرة."
[سورة الأحزاب، ج:11، ص:187، ط:دار الكتب العلمية]
سنن الترمذی میں ہے:
"عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان»: «هذا حديث حسن صحيح غريب»."
[أبواب الرضاع، ج:3،ص:468، ط:مطبعة مصطفي البابي]
فتح القدیر میں ہے:
"وحيث أبحنا لها الخروج فإنما يباح بشرط عدم الزينة وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال والاستمالة، قال الله تعالى {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى}."
[كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:4، ص:399، ط:دار الفكر]
فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:
"حامدا ومصلیا ومسلما!عورتوں کو جماعت میں لے جانا مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے، اور وإثمهما أكبر من نفعهما کا مصداق ہے، عورتیں غیر محتاط ہوتی ہیں۔"
(حقوق ومعاشرت،ج:۳،ص: ۲۵۴،ط:دار الاشاعت)
احسن الفتاوی میں ایک تفصیلی فتوے کے تحت لکھا ہے:
"حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ کے مطلقاً حرمت کے فیصلے میں ضرورت ِ شرعیہ سے کچھ گنجائش تلاش کرنے کی سعی کے باوجود خواتین کے لئے تبلیغی جماعت میں نکلنے کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکی۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:8،ص:61،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100849
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن